ناظر صدیقی کی غزل

    فصیل جاں پہ رکھی تھی نہ بام و در پہ رکھی تھی

    فصیل جاں پہ رکھی تھی نہ بام و در پہ رکھی تھی زمانے بھر کی بے خوابی مرے بستر پہ رکھی تھی ابھر آئی تھی پیشانی پہ نقش معتبر بن کر پرانی فکر کی خوشبو نئے منظر پہ رکھی تھی نظر اٹھی تو بس حیرت سے ہم دیکھا کئے اس کو ہماری گمشدہ دستار اس کے سر پہ رکھی تھی اسی کو زخم دینے پر تلا تھا ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے اب باہر نکلنے میں بھی گھبراتے ہیں ہم

    گھر سے اب باہر نکلنے میں بھی گھبراتے ہیں ہم سنگ باری ہو کہیں بھی زد میں آ جاتے ہیں ہم آ گلے لگ جا ہمارے تیرگیٔ شام غم روشنی کے نام پر دھوکے بہت کھاتے ہیں ہم ان کا کہنا ہے کہ بس ترک تعلق ہو چکا ہم یہ کہتے ہیں کہ اب تنہا رہے جاتے ہیں ہم یوں تو دنیا نے بھی رکھا ہے نشانے پر ہمیں وحشت ...

    مزید پڑھیے

    مقتل سے میرا کاسۂ سر کون لے گیا

    مقتل سے میرا کاسۂ سر کون لے گیا اس تک یہ دل خراش خبر کون لے گیا چہرے پہ گرد راہ بھی باقی نہیں رہی مجھ سے مرا ثبوت سفر کون لے گیا راس آ چلی تھی دل کی فضائے جنون شوق بہکا کے مجھ کو دشت سے گھر کون لے گیا بے لوث دوستی کے زمانے کہاں گئے سرمایۂ خلوص بشر کون لے گیا یہ دیکھنے کی کوئی ...

    مزید پڑھیے

    تلاطم خیز منظر ہو گئی ہیں

    تلاطم خیز منظر ہو گئی ہیں مری آنکھیں سمندر ہو گئی ہیں اڑانا چاہتی ہیں خاک میری ہوائیں بھی ستم گر ہو گئی ہیں تری مہکی ہوئی زلفوں کو چھو کر گھٹائیں روح پرور ہو گئی ہیں ہوائے گرم تیری شعلگی سے زمینیں جل کے پتھر ہو گئی ہیں اجالے بڑھ رہے ہیں میری جانب دعائیں بار آور ہو گئی ...

    مزید پڑھیے

    منزل کے دور دور تک آثار تک بھی نہیں

    منزل کے دور دور تک آثار تک بھی نہیں میں راہ میں ٹھہرنے کو تیار بھی نہیں حالات کہہ رہے ہیں کہ اس دور نو کے لوگ سوئے ہوئے نہیں ہیں تو بے دار بھی نہیں مجھ کو اگر پڑھا تو بھلا پائے گا نہ وہ میں ہر نظر میں صبح کا اخبار بھی نہیں جو دوسروں کے گھر میں اجالا نہ کر سکے میں ایسی روشنی کا طلب ...

    مزید پڑھیے

    شاخ پہ چڑیا گاتی ہے

    شاخ پہ چڑیا گاتی ہے جو کچھ ہے لمحاتی ہے پلکیں بھیگی رہتی ہیں دل کی فضا جذباتی ہے بات کروں یا شعر کہوں ایک سی خوشبو آتی ہے شہر میں ہوں اور تنہا ہوں رنگ مرا قصباتی ہے فکر ہے مجھ کو اپنی ہی غم بھی میرا ذاتی ہے حکم نہ دو بے داری کا نیند ہی کس کو آتی ہے لمس انا پر اتنا ناز خوشبو ہے ...

    مزید پڑھیے

    فضائے تیرہ شبی کا حساب کرنا ہے

    فضائے تیرہ شبی کا حساب کرنا ہے چراغ شام تجھے ماہتاب کرنا ہے مری سرشت میں داخل وفا کی پابندی ترا شعار مسلسل عتاب کرنا ہے ہمارے شانوں پہ ہے بوجھ زندگی کا مگر ہمیں کو فکر عذاب و ثواب کرنا ہے زمیں پہ ظلم کی کھیتی بھی سوکھ جائے گی بس ایک دن اسے حکم عذاب کرنا ہے لہو کا قطرۂ آخر بھی ...

    مزید پڑھیے

    سواد شام غم میں یوں تو دیر تک جلا چراغ

    سواد شام غم میں یوں تو دیر تک جلا چراغ نہ جانے کیوں تھکا تھکا اداس اداس تھا چراغ پھر اس کے بعد عمر بھر یہ جستجو رہی مجھے کہ ایک شب گزار کے کہاں چلا گیا چراغ وہ کب سے تھا وہ کون تھا کوئی تو میرے ساتھ تھا مرے سفر میں یک بہ یک کہاں سے آ گیا چراغ بجھا سکے تو اب تجھے مری صلائے عام ...

    مزید پڑھیے

    کر لیا محفوظ خود کو رائیگاں ہوتے ہوئے

    کر لیا محفوظ خود کو رائیگاں ہوتے ہوئے میں نے جب دیکھا کسی کو بد گماں ہوتے ہوئے مصلحت کوشی مری فطرت میں شامل ہی نہ تھی دھوپ میں جھلسا کیا میں سائباں ہوتے ہوئے رفتہ رفتہ رونق بازار بڑھتی ہی گئی وقت کے چہرے پہ زخموں کے نشاں ہوتے ہوئے گر یوں ہی جاری رہا اس کے ستم کا سلسلہ ٹوٹ جاؤں ...

    مزید پڑھیے