فصیل جاں پہ رکھی تھی نہ بام و در پہ رکھی تھی
فصیل جاں پہ رکھی تھی نہ بام و در پہ رکھی تھی زمانے بھر کی بے خوابی مرے بستر پہ رکھی تھی ابھر آئی تھی پیشانی پہ نقش معتبر بن کر پرانی فکر کی خوشبو نئے منظر پہ رکھی تھی نظر اٹھی تو بس حیرت سے ہم دیکھا کئے اس کو ہماری گمشدہ دستار اس کے سر پہ رکھی تھی اسی کو زخم دینے پر تلا تھا ...