نظیر صدیقی کی غزل

    یہ جو انساں خدا کا ہے شہکار

    یہ جو انساں خدا کا ہے شہکار اس کی قسمت پہ ہے خدا کی مار مرگ دشمن کی آرزو ہی سہی دل سے نکلے کسی طرح تو غبار نام بدنام ہو چکا حضرت کیجیے اب تو جرم کا اقرار ہوگا دونوں کا خاتمہ بالخیر اب تصادم میں ہے نہ جیت نہ ہار بک چکی جنس نادر و نایاب ہو چکی ختم گرمئ بازار اتفاقی ہے دو دلوں کا ...

    مزید پڑھیے

    چشم نم کچھ بھی نہیں اور شعر تر کچھ بھی نہیں

    چشم نم کچھ بھی نہیں اور شعر تر کچھ بھی نہیں اب یہاں خون جگر نقش ہنر کچھ بھی نہیں ہے سبھی کچھ مہرباں نا مہرباں لفظوں کا پھیر زندگی میں معتبر نا معتبر کچھ بھی نہیں دل سے دل کو راہ کیسی ہے یہ حسن اتفاق ورنہ دنیا میں محبت کا اثر کچھ بھی نہیں جس ہنر کو لوگ سمجھیں گے کبھی لعل و گہر آج ...

    مزید پڑھیے

    کس قوت‌ بے درد کا اظہار ہے دنیا

    کس قوت‌ بے درد کا اظہار ہے دنیا ہر دل کو گلا ہے کہ دل آزار ہے دنیا لوگ اس کو کہا کرتے ہیں اچھا بھی برا بھی کیا خوب کہ دونوں کی سزاوار ہے دنیا ملتا ہی نہیں کوئی دل زار کا پرساں میرے لیے اک محفل اغیار ہے دنیا ہر سنگ میں دنیا کو نظر آتا ہے اک بت اور ایسے ہر اک بت کی پرستار ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں

    ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں کس کس کے در پہ مانگیں دعا تیرے شہر میں مجرم ہیں سارے اہل وفا تیرے شہر میں کیا خوب ہے وفا کا صلہ تیرے شہر میں اہل ہوس کے نام سے ہیں روشناس خلق ملتی ہے جن کو داد وفا تیرے شہر میں رکھتے ہیں لوگ تہمتیں اپنے نصیب پر کرتے ہیں یوں بھی تیرا گلا تیرے شہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2