Nazeer Rampuri

نظیر رامپوری

نظیر رامپوری کی غزل

    زخم الفت عیاں نہیں ہوتا

    زخم الفت عیاں نہیں ہوتا آنکھ سے خوں رواں نہیں ہوتا حسن کو صرف وہم ہے ورنہ عشق تو بد گماں نہیں ہوتا کوئی منزل بھلا قدم چومے عزم جب تک جواں نہیں ہوتا دیکھیے تو نقاب الٹ کے ذرا چاند کب تک عیاں نہیں ہوتا دیکھ کر غمزدہ سے کچھ چہرے درد دل کیوں عیاں نہیں ہوتا کوہ و صحرا ہو دشت ایمن ...

    مزید پڑھیے

    غم ہے کھانے کو اشک پینے کو

    غم ہے کھانے کو اشک پینے کو یہ بھی کم کیا ہے اپنے جینے کو دل میں ہرگز نہ رکھئے کینے کو اور بھی غم بہت ہیں جینے کو اپنے دل میں چھپائے پھرتا ہوں میں ترے درد کے دفینے کو جس کو کہتی ہے اشک غم دنیا کوئی دیکھے تو اس نگینے کو موج در موج آ رہی ہے صدا ڈوب جانے دو اب سفینے کو لاگ میں ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کی شب میں بیاں کس سے میں روداد کروں

    ہجر کی شب میں بیاں کس سے میں روداد کروں ان کا پردہ بھی رکھوں اپنی بھی فریاد کروں آہ و نالہ نہ کروں اور نہ فریاد کروں سوچتا ہوں میں انہیں کس طرح اب یاد کروں محفل غیر میں وہ مجھ کو ملیں تو اے دل کس طرح ذکر ترا اے دل ناشاد کروں ماسوا تیرے نظر میں کوئی جچتا ہی نہیں خانۂ دل میں تجھے ...

    مزید پڑھیے

    وہ نہیں ہے تو زندگی کیسی

    وہ نہیں ہے تو زندگی کیسی اس اندھیرے میں روشنی کیسی دل کی بربادیوں کے ماتم پر زیر لب ہے ترے ہنسی کیسی کون رہ رہ کے یاد آتا ہے دل میں رہتی ہے بیکلی کیسی سوز دل نے بدن جلا ڈالا پھر مرے رخ پہ تازگی کیسی ہم سفر ہو کے کارواں لوٹا رہبری میں یہ رہزنی کیسی مجھ کو احساس آسماں نہ ...

    مزید پڑھیے

    کھل گیا شاید بھرم اے دل جنوں کے راز کا

    کھل گیا شاید بھرم اے دل جنوں کے راز کا بدلا بدلا سا نظر آتا ہے رخ دم ساز کا گونجتی ہے اب بھی کانوں میں صدائے بازگشت ٹوٹنا دل کا تھا اک نغمہ شکستہ ساز کا ماہ و انجم میں بھی اس کا حسن جلوہ ریز ہے آفتاب اک عکس ہے حسن کرشمہ ساز کا اک پری خانہ ہے یہ شہر حسیں لیکن یہاں کوئی چہرہ بھی نظر ...

    مزید پڑھیے