Nazeer Muzaffarpuri

نظیر مظفرپوری

نظیر مظفرپوری کی غزل

    جو کچھ نمایاں ہوا الاماں معاذ اللہ

    جو کچھ نمایاں ہوا الاماں معاذ اللہ تلطف و کرم دوستاں معاذ اللہ کہے گی وہ نگۂ اعتماد آگیں کیا کھلیں گی جب مری عیاریاں معاذ اللہ وہ راہ عشق میں دل کی مآل اندیشی وہ میری عقل کی نادانیاں معاذ اللہ پھر ان کے لطف کا موسم پلٹ کے آئے گا تخیلات کی گل کاریاں معاذ اللہ یہ مے کدہ تو ...

    مزید پڑھیے

    گم بہ خود بیگانۂ ہر عیش محفل ہو گئے

    گم بہ خود بیگانۂ ہر عیش محفل ہو گئے ان سے مل کر اور بھی تنہا ہم اے دل ہو گئے کتنی نامنظور قدریں تھیں جو اپنانی پڑیں کتنے ہی پیارے عقائد تھے جو باطل ہو گئے علم جب کچھ بھی نہ تھا تو اس قدر جاہل نہ تھے علم کچھ حاصل ہوا تو اور جاہل ہو گئے زندگی کا لطف طوفاں میں ہے طغیانی میں ہے حیف ...

    مزید پڑھیے

    بس اور کیا کہوں اس سلسلہ میں توبہ ہے

    بس اور کیا کہوں اس سلسلہ میں توبہ ہے مجھے جو پہنچا ہے دکھ دوستوں سے پہنچا ہے مرے وجود سے حیرت میں ہے مفسر عقل وہ راز ہوں جو نہ مستور ہے نہ افشا ہے مجھے حیات سے ہے اس لیے بھی دلچسپی یہ ایک دن کا نہیں عمر بھر کا سودا ہے وہ تیرے لطف تبسم کی نغمگی اے دوست کہ جیسے قوس قزح پر ستار بجتا ...

    مزید پڑھیے