نظیر باقری کی غزل

    یہ ہیں تیراک مگر حال یہ ان کے دیکھے

    یہ ہیں تیراک مگر حال یہ ان کے دیکھے غرق ہوتے ہوئے طوفان میں تنکے دیکھے چھین لیتے ہیں جو انسان سے احساس نظر وہ اندھیرے کسی شب کے نہیں دن کے دیکھے آ گیا یاد انہیں اپنے کسی غم کا حساب ہنسنے والوں نے مرے اشک جو گن کے دیکھے وہ عجب شان کا گھر ہے کہ جہاں پر سب لوگ ایک ہی شکل کے اور ایک ...

    مزید پڑھیے

    کچھ دیر سادگی کے تصور سے ہٹ کے دیکھ

    کچھ دیر سادگی کے تصور سے ہٹ کے دیکھ لکھا ہوا ورق ہوں مجھے پھر الٹ کے دیکھ مانا کہ تجھ سے کوئی تعلق نہیں مگر اک بار دشمنوں کی طرح ہی پلٹ کے دیکھ پھر پوچھنا کہ کیسے بھٹکتی ہے زندگی پہلے کسی پتنگ کی مانند کٹ کے دیکھ تا عمر پھر نہ ہوگی اجالوں کی آرزو تو بھی کسی چراغ کی لو سے لپٹ کے ...

    مزید پڑھیے

    روز خوابوں میں نئے رنگ بھرا کرتا تھا

    روز خوابوں میں نئے رنگ بھرا کرتا تھا کون تھا جو مری آنکھوں میں رہا کرتا تھا انگلیاں کاٹ کے وہ اپنے لہو سے اکثر پھول پتوں پہ مرا نام لکھا کرتا تھا کیسا قاتل تھا جو ہاتھوں میں لیے تھا خنجر چپکے چپکے مرے جینے کی دعا کرتا تھا ہائے قسمت کہ یہی چھوڑ کے جانے والا عمر بھر ساتھ نباہیں ...

    مزید پڑھیے

    دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو

    دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو میں جل رہا تھا کسی نے بجھا دیا مجھ کو ترقیوں کا فسانہ سنا دیا مجھ کو ابھی ہنسا بھی نہ تھا اور رلا دیا مجھ کو میں ایک ذرہ بلندی کو چھونے نکلا تھا ہوا نے تھم کے زمیں پر گرا دیا مجھ کو سفید سنگ کی چادر لپیٹ کر مجھ پر فصیل شہر پہ کس نے سجا دیا مجھ ...

    مزید پڑھیے

    جب نہ آنے کی قسم آپ نے کھا رکھی تھی

    جب نہ آنے کی قسم آپ نے کھا رکھی تھی میں نے پھر کس کے لیے شمع جلا رکھی تھی رکھ دیا ان کو بھی جھولی میں ستم گاروں کی میں نے جن ہاتھوں سے بنیاد وفا رکھی تھی جانتا کون بھلا کیسے کسی کے حالات وقت نے بیچ میں دیوار اٹھا رکھی تھی اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر میری شہ رگ پہ مری ماں ...

    مزید پڑھیے

    میں ایک قرض ہوں سر سے اتار دے مجھ کو

    میں ایک قرض ہوں سر سے اتار دے مجھ کو لگا کے داؤں پہ اک روز ہار دے مجھ کو بکھر چکا ہوں غم زندگی کے شانوں پر اب اپنی زلف کی صورت سنوار دے مجھ کو ہزار چہرے ابھرتے ہیں مجھ میں تیرے سوا میں آئنہ ہوں تو گرد و غبار دے مجھ کو کسی نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے پھر ایک بار خدا اعتبار دے ...

    مزید پڑھیے

    یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا سارے منظر بھول گئے

    یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا سارے منظر بھول گئے اس کی گلیوں سے جب لوٹے اپنا بھی گھر بھول گئے خوب گئے پردیس کے اپنے دیوار و در بھول گئے شیش محل نے ایسا گھیرا مٹی کے گھر بھول گئے تجھ کو بھی جب اپنی قسمیں اپنے وعدے یاد نہیں ہم بھی اپنے خواب تری آنکھوں میں رکھ کر بھول گئے مجھ کو جنھوں ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے

    اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مر جانے دے اے نئے دوست میں سمجھوں گا تجھے بھی اپنا پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے زخم کتنے تری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے گی کوئی آنسو مرے دامن پہ ...

    مزید پڑھیے

    جب زبانوں میں یہاں سونے کے تالے پڑ گئے

    جب زبانوں میں یہاں سونے کے تالے پڑ گئے دودھیا چہرے تھے جتنے وہ بھی کالے پڑ گئے ڈوبنے سے پہلے سورج کے نکل آتا ہے چاند ہاتھ دھو کر شام کے پیچھے اجالے پڑ گئے بلبلے پانی پہ مت سمجھو ہوائیں قید ہیں سانس لینے کے لیے موجوں کو لالے پڑ گئے جب سے اس پر ایک چلو پیاس کے شعلے گرے تب سے سارے ...

    مزید پڑھیے

    کون پہچانے مجھے شب بھر تو خطروں میں رہا

    کون پہچانے مجھے شب بھر تو خطروں میں رہا وہ اندھیرا ہوں جو دن بھر بند کمروں میں رہا سب کی نظریں روز پڑتی تھیں کوئی پڑھتا نہ تھا میں تو ہر اخبار کی گمنام خبروں میں رہا میں نے دنیا چھوڑ دی لیکن مرا مردہ بدن ایک الجھن کی طرح قاتل کی نظروں میں رہا آج کا انسان چادر اوڑھ کر احساس ...

    مزید پڑھیے