ناز خیالوی کی غزل

    دل کا ہر زخم جواں ہو تو غزل ہوتی ہے

    دل کا ہر زخم جواں ہو تو غزل ہوتی ہے درد نس نس میں رواں ہو تو غزل ہوتی ہے دل میں ہو شوق ملاقات کا طوفان بپا اور رستے میں چناں ہو تو غزل ہوتی ہے شوق حسرت کے شراروں سے جلا پاتا ہے جان جاں دشمن جاں ہو تو غزل ہوتی ہے کچھ بھی حاصل نہیں یک طرفہ محبت کا جناب ان کی جانب سے بھی ہاں ہو تو غزل ...

    مزید پڑھیے

    عذاب حسرت و آلام سے نکل جاؤ

    عذاب حسرت و آلام سے نکل جاؤ مری سحر سے مری شام سے نکل جاؤ بہانہ چاہیے گھر سے کوئی نکلنے کو کسی طلب میں کسی کام سے نکل جاؤ ہمارے خانۂ دل میں رہو سکون کے ساتھ نکلنا چاہو تو آرام سے نکل جاؤ خدا نصیب کرے تم کو بے گھری کا مذاق حصار شوق در و بام سے نکل جاؤ سفر ہے شرط مسافر نواز ...

    مزید پڑھیے

    پہلے جیسا رنگ بام و در نہیں لگتا مجھے

    پہلے جیسا رنگ بام و در نہیں لگتا مجھے اب تو اپنا گھر بھی اپنا گھر نہیں لگتا مجھے لگتی ہوگی تجھ کو بھی میری نظر بدلی ہوئی تیرا پیکر بھی ترا پیکر نہیں لگتا مجھے کیا کہوں اس زلف سے وابستگی کا فائدہ اب اندھیری رات میں بھی ڈر نہیں لگتا مجھے مجھ کو زخمی کر نہیں سکتا کوئی دست ستم میں ...

    مزید پڑھیے

    بہت عرصہ گنہ گاروں میں پیغمبر نہیں رہتے

    بہت عرصہ گنہ گاروں میں پیغمبر نہیں رہتے کہ سنگ و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوق تماشا کی کبھی نظریں نہیں رہتیں کبھی منظر نہیں رہتے بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ ...

    مزید پڑھیے

    پھولنے پھلنے لگے ہیں صاحب زر اور بھی

    پھولنے پھلنے لگے ہیں صاحب زر اور بھی تنگ ہو جائے گی دھرتی مفلسوں پر اور بھی یہ زمیں زرخیز ہوگی خون پی کر اور بھی کھیتیاں اگلا کریں گی لعل و گوہر اور بھی ہر زمانے میں ثبوت عشق مانگا جائے گا لال ماؤں کے چڑھیں گے سولیوں پر اور بھی پھولتے پھلتے ہیں جذبے درد کے ماحول میں زخم کھائیں ...

    مزید پڑھیے