Nayyar Sultanpuri

نیر سلطانپوری

  • 1908 - 1935

نیر سلطانپوری کی غزل

    شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیا

    شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیا سارا غبار دل کا نکلتا چلا گیا روشن کیا امید نے یوں جادۂ حیات ہر گام پہ چراغ سا جلتا چلا گیا راس آ سکی سکوں کو نا تدبیر ضبط غم آنکھوں سے خون دل کا ابلتا چلا گیا جس پر مرے فریب تمنا کو ناز تھا وہ دن بھی انتظار میں ڈھلتا چلا گیا پچھلے پہر جو شمع ...

    مزید پڑھیے

    دل ہی تو ہے نگاہ کرم سے پگھل گیا

    دل ہی تو ہے نگاہ کرم سے پگھل گیا شکوہ لبوں پہ آ کے تبسم میں ڈھل گیا پہونچا نہ تھا یقین کی منزل پہ میں ابھی میرا خیال مجھ سے بھی آگے نکل گیا خلوت بنی ہوئی تھی تری انجمن مگر میں آ گیا تو بزم کا نقشہ بدل گیا واں مطمئن کرم کہ دیا ہے بقدر ظرف یاں اضطراب شوق میں ساغر بدل گیا ہے چشم ...

    مزید پڑھیے

    سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں

    سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں زخموں کا ایک باغ لیے پھر رہا ہوں میں ڈر ہے کہ تیرگی میں قدم ڈگمگا نہ جائے اک شہر بے چراغ لیے پھر رہا ہوں میں ساقی نہ پوچھ آج کے شیشہ گروں کا حال ٹوٹا ہوا ایاغ لیے پھر رہا ہوں میں کیا جانے کس کے نام ہے یہ نامۂ کرم ملتا نہیں سراغ لیے پھر رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    خیر لایا تو جنوں دیوار سے در کی طرف

    خیر لایا تو جنوں دیوار سے در کی طرف اب نظر جانے لگی باہر سے اندر کی طرف کشتئ امید کے ہر بادباں اڑنے لگے کس نے رخ موڑا ہواؤں کا سمندر کی طرف یوں بھی ہوتا ہے مدارات جنوں کے شوق میں پھول جیسے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں پتھر کی طرف ہم نے سمجھے تھے کہ یہ ہوگا مآل کار عشق رخ کیا باد بہاری نے ...

    مزید پڑھیے