Nawab Sulaiman Shikoh

نواب سلیمان شکوہ

  • 1755 - 1838

نواب سلیمان شکوہ کی غزل

    گھر سے برقعہ جو الٹ وہ مہ تاباں نکلا

    گھر سے برقعہ جو الٹ وہ مہ تاباں نکلا چونک اٹھی خلق کہ ایں مہر درخشاں نکلا مہ کو اور تجھ کو جو میزان خرد میں تولا اس سے تو حسن میں اے یار دو چنداں نکلا رہ گئے ہوش و حواس و خرد و طاقت سب یوں ترے کوچے سے میں بے سر و ساماں نکلا یاں تلک تیر مژہ کھائے ہیں میں نے اس کے جائے سبزہ مرے مرقد ...

    مزید پڑھیے

    ساقیا ہے یہ جام کا عالم

    ساقیا ہے یہ جام کا عالم جیسے ماہ تمام کا عالم کبک رفتار اپنی بھول گئے دیکھو اس کے خرام کا عالم اب خدا پھر ہمیں نہ دکھلائے شب ہجراں کی شام کا عالم تجھ پہ ہے ان دنوں میں نام خدا کچھ عجب دھوم دھام کا عالم

    مزید پڑھیے

    جب تیغ کو پکڑ وہ خونخوار گھر سے نکلا

    جب تیغ کو پکڑ وہ خونخوار گھر سے نکلا تب میں بھی جان سے ہو بیزار گھر سے نکلا ہر مو کمر کے سو سو بل پڑ گئے کمر میں پٹکا جو باندھ کر وہ بل دار گھر سے نکلا کشتے کو تیرے در سے افسوس لے گئے کل اور تو نہ اک قدم بھی اے یار گھر سے نکلا چھوڑا نہ جب گریباں دست جنوں نے میرا تب چیر کر میں اس کو ...

    مزید پڑھیے

    اوروں کی طرح سے اب نہ ٹالو

    اوروں کی طرح سے اب نہ ٹالو ہم کو اپنے گلے لگا لو گالی نہ دیا کرو کسی کو بس بس اپنی زباں سنبھالو غرفے میں سے جھانک پاس اپنے غیروں کو ہنسی خوشی بلا لو اور ہم سے ہزار حیف پیارے منہ کو شرما کے یوں چھپا لو ہے قافلہ عمر کا روانہ رخت اپنا مسافرو سنبھالو بت خانے کی راہ کو ...

    مزید پڑھیے