Navin C. Chaturvedi

نوین سی چترویدی

نوین سی چترویدی کی غزل

    جس کو اپنے بس میں کرنا تھا اس سے ہی لڑ بیٹھا

    جس کو اپنے بس میں کرنا تھا اس سے ہی لڑ بیٹھا سیدھا منتر پڑھتے پڑھتے الٹا منتر پڑھ بیٹھا وہ ایسا تصویر نواز کہ جس کو میں جنچتا ہی نہیں اور اک میں ہر فریم کے اندر چتر اسی کا جڑ بیٹھا گیان لٹانے نکلا تھا اور جھولی میں بھر لایا پیار میں ایسا رنگ ریز ہوں جس پہ رنگ چنر کا چڑھ ...

    مزید پڑھیے

    غنیمت سے گزارا کر رہا ہوں

    غنیمت سے گزارا کر رہا ہوں مگر چرچا ہے جلسہ کر رہا ہوں زمانے تجھ سے توبہ کر رہا ہوں بدن کا رنگ نیلا کر رہا ہوں ٹھہرنا تک نہیں سیکھا ابھی تک ازل سے وقت ضائع کر رہا ہوں تسلی آج بھی ہے فاصلوں پر سرابوں کا ہی پیچھا کر رہا ہوں مرا سایہ مرے بس میں نہیں ہے مگر دنیا پہ دعویٰ کر رہا ہوں

    مزید پڑھیے

    مکانوں کے نگر میں ہم اگر کچھ گھر بنا لیتے

    مکانوں کے نگر میں ہم اگر کچھ گھر بنا لیتے تو اپنی بستیوں کو سورگ سے بڑھ کر بنا لیتے ہمیں اپنے علاقوں سے محبت ہو نہیں پائی وگرنہ زندگی کو اور بھی بہتر بنا لیتے سمے سے لڑ رہے تھے اور لمحے کر دیے برباد ہمیں کرنا یہ تھا لمحات کا لشکر بنا لیتے غنیمت ہے کہ جنگل کے اصولوں کو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    چڑھا کر تیر نظروں کی کماں پر

    چڑھا کر تیر نظروں کی کماں پر حسینوں کے قدم ہیں آسماں پر ہر اک لمحہ لگے وہ آ رہے ہے یقیں بڑھتا ہی جاتا ہے گماں پر کوئی وعدہ وفا ہو جائے شاید بھروسہ آج بھی ہے جان جاں پر اترتی ہی نہیں بوسوں کی لذت ابھی تک سواد رکھا ہے زباں پر کسی کی روح پیاسی رہ نہ جائے لہٰذا غم برستے ہے جہاں ...

    مزید پڑھیے

    کتنی بار بتاؤں تجھ کو کیسا لگتا ہے

    کتنی بار بتاؤں تجھ کو کیسا لگتا ہے تجھ سے ملنا باتیں کرنا اچھا لگتا ہے نتھنی سے اوپر پلکوں سے نیچے گھونگھٹ رکھ مجھ کو آدھا چاند بہت ہی پیارا لگتا ہے صدیوں سے ہے یوں ہی تر و تازہ اور خوشبو دار کیسے کہہ دوں عشق گلابوں جیسا لگتا ہے آنسو کا قطرہ کھارا ہی ہوتا ہے لیکن تجھ کو دیکھ کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2