Nasreen Anjum Bhatti

نسرین انجم بھٹی

نسرین انجم بھٹی کی نظم

    بھرم

    سڑک صاف سیدھی ہے اور دھوپ ہے دوپہر کا سفر اک اکیلی سڑک پیر تسمہ بپا یوں چلی جا رہی ہے کہ جیسے چلی ہی نہیں ایستادہ ہے بس جیسے بے سر کے دھڑ اور کٹے پاؤں کے آدمی آدمی تم بھی ہو آدمی میں بھی ہوں اور تم نے بھرم رکھ لیا تم نے اچھا کیا میری آنکھوں میں جھانکا نہیں ورنہ ڈر جاتے تم گہرے پانی ...

    مزید پڑھیے

    ابھی وہ ایک دن کا بھی نہیں

    ابھی وہ ایک دن کا بھی نہیں بھٹی سے مٹی کی نسل آگ کا نام پوچھتی اور گیلی چھاؤں تلے سو نہ نہ جاتی تو قیدی قیدی نہ جنتے کلیاں کھلتیں یا موسم رہا ہوتے یا کچھ اور ہوتا مگر یوں ہوا کہ اس کے میرے درمیاں اک پل ٹوٹ گیا اس کے میرے درمیاں ایک تتلی بھڑکتی پھرتی ہے اس کے میرے درمیاں اک راہ مسافر ...

    مزید پڑھیے

    ایک موقع

    خواب پرست! اجالا نہ کر میرا خون سفید اور رنگ فق ہے مجھے ناخن سے کرید، آ چل کے کہیں بیٹھیں بادشاہ کے حضور کھڑے کھڑے میں شل ہو گئی موم بتی کی طرح مجھے الگنی پر ٹانگ دے کہ میری دوہرگی کا بوجھ بان بٹنے والے پہ ہو تجھ پر نہ ہو خواب پرست! مجھے جگا تو لے پھر سو جانا کیونکہ نہیں جانا جس نے ...

    مزید پڑھیے

    بازی جن کے ہاتھ رہی

    جتنی دیر میں تم ایک آہٹ سے اترتے ہو اور سویر سے اپنی پلکیں اکٹھی کرتے ہو اتنی دیر میں ایک نظم بن چکی ہوتی ہے نظم جس کی آنکھوں سے لوبان کی خوشبو اور پلکوں سے نم ٹپکتا ہو اور وہ اپنی پہچان کے لئے خود اپنا وسیلہ بنے لیکن اگر اس کے بعد کے وسیلے زیادہ معتبر ٹھہریں تو حیرتیں افسوس اور ...

    مزید پڑھیے

    آپے رانجھا ہوئی

    مغربی صحرا کے کنارے کندن کے پھول کھلنا شروع ہو گئے ہیں مشرقی صحرا کے بیچوں بیچ کھڑی سندری کی ناک کا لونگ مرجھا گیا ہے یہ کس تاریخ کے اخبار کی خبر ہے کوئی اشتہار ہے کیا دیواروں پہ لکیریں نہ ڈالو مٹاؤ گے تو تمہارے ہی ہاتھ کالے ہوں گے ہاں کھیل کھیل میں ہی دلالی سیکھ جاؤ گے کوئلوں کا ...

    مزید پڑھیے

    بعد کے بعد

    صحیفے اترنے سے پہلے اور نبیوں کے نزول کے بعد ہاتھ سے گرے ہوئے نوالوں کی طرح ہمیں کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا رہا اس درمیان، آنکھوں کے نیچے ہم نے اپنے ہاتھ رکھے کہ وہ پاؤں پر نہ گر پڑیں اور کانچ کا اعتبار جاتا رہے مجھے آگ سے لکھ اور پانی سے اگا مٹی کے ساتھ انصاف میں خود کروں گی وہ تو ...

    مزید پڑھیے

    محبت کی آخری نظم

    دم رخصت تپے ہوئے لہجے میں خاموش رہنے والا آنکھوں تک سلگ اٹھا ہوگا اس کی سانسوں سے میرا دم رک گیا اور میری ہتھیلیاں دھڑکنے لگیں میرا مرد پورے چاند کی طرح مجھ پر چھا گیا وہ آگ سے مرتب ہے میرے انگ انگ میں پگھلنے کی آرزو ہے اس کے لمس میں میرے خمیر کی خوشبو کہاں سے سما گئی کہ میں اپنی ...

    مزید پڑھیے

    بالآخر

    اور جب وہ چلی لوگ بولے کہ جھلی ہے پاگل ہے مینٹل ہے یہ اور اس نے سنا تو ہنسی انگلیوں سے وہ دیوار پر دو لکیریں بناتی چلی ہی گئیں لکیریں جو دیوار پر چند لفظوں کے موہوم سے فاصلے سے اکٹھی چلی جا رہی تھیں دما دم رواں بے رکے آگے آگے ہی آگے نہ ملنے کی خاطر کہ ملنا ہے تو حرف آخر نہیں

    مزید پڑھیے

    آگہی

    حوض کے ساتھ ساتھ اگی سبز گھاس پر دھوپ کی لرزشیں دھیمی دھیمی دودھ کی بے مزہ کچی کچی مہک آگہی آنکھیں آنکھوں کے اندر بھی آنکھیں اگ آئی ہیں کیا گھاس کی شاخ ہوتی نہیں نہ سہی گھاس کی شاخ سے پھر بھی چمٹے ہوئی سبز ٹڈے نے بھرپور سی نیند میں جاگتے لہلہاتے پلکیں جھپکتے ہوئے پھول کو کھا لیا

    مزید پڑھیے

    بارش دیکھتی ہے

    بارش دیکھتی ہے کہ اسے کہاں برسنا ہے اور دھوپ جانتی ہے کہ اسے کہاں نہیں جانا مگر وہ جاتی ہے اور شکار ہوتی ہے اور کانٹوں میں پھنس کر بٹ جاتی ہے اور ریت کے ذروں کی طرح زمین سے اٹھائی نہیں جاتی رات سمجھتی ہے اور سمجھ کر خاموش رہتی ہے صرف اپنے کونوں پر گرہیں لگاتی رہتی ہے اور کہتی ہے آ ...

    مزید پڑھیے