بھرم
سڑک صاف سیدھی ہے اور دھوپ ہے دوپہر کا سفر اک اکیلی سڑک پیر تسمہ بپا یوں چلی جا رہی ہے کہ جیسے چلی ہی نہیں ایستادہ ہے بس جیسے بے سر کے دھڑ اور کٹے پاؤں کے آدمی آدمی تم بھی ہو آدمی میں بھی ہوں اور تم نے بھرم رکھ لیا تم نے اچھا کیا میری آنکھوں میں جھانکا نہیں ورنہ ڈر جاتے تم گہرے پانی ...