Nasir Rao

ناصر راؤ

  • 1990

ناصر راؤ کی غزل

    ایک دو رات میں شہرت نہیں ملتی پگلے

    ایک دو رات میں شہرت نہیں ملتی پگلے اتنے سستے میں یے دولت نہیں ملتی پگلے ہو اگر خوف خدا کام بنا کرتا ہے صرف مسواک سے جنت نہیں ملتی پگلے میں جو خود چل کے تری ذات تلک آیہ ہوں ورنہ یوں ہے کے محبت نہیں ملتی پگلے ہم کو ضد تھی کے یہی راستہ چلنا ہے ہمیں ورنہ ہر موڑ پہ آفت نہیں ملتی ...

    مزید پڑھیے

    جو گھاؤ تم نے دیا تھا وہ گھاؤ زندہ ہے

    جو گھاؤ تم نے دیا تھا وہ گھاؤ زندہ ہے ابھی ہنسو نہ مری جان راؤؔ زندہ ہے تمہاری دل سے وہی کھیلنے کی عادت ہے ہمارا اپنا وہی رکھ رکھاؤ زندہ ہے ابھی نہ سوچ مری ہار تیری جیت ہوئی ابھی تو کھیل میں انتم پڑاؤ زندہ ہے ڈرے ڈرے ہوئے سہمے ہوئے اندھیرے ہیں چراغ بجھ تو رہا ہے دباؤ زندہ ...

    مزید پڑھیے

    کہیں عذاب کہیں پر ثواب لکھتے ہیں

    کہیں عذاب کہیں پر ثواب لکھتے ہیں فرشتے روز ہمارا حساب لکھتے ہیں بہت سے لوگ تو ایسے بھی ہیں اسی یگ میں کتاب پڑھتے نہیں ہیں کتاب لکھتے ہیں وہ اپنے جسم کے خانوں میں آگ رکھتے ہیں گلاب ہوتے نہیں ہیں گلاب لکھتے ہیں یہاں کے لوگ تو تعبیر جانتے ہی نہیں یہ اپنے نیند میں رہنے کو خواب ...

    مزید پڑھیے

    جب اجالا گلی سے گزرنے لگا

    جب اجالا گلی سے گزرنے لگا سب اندھیروں کا چہرہ اترنے لگا دور بدلہ تو میں بھی بدل سا گیا بے گناہی سے اپنی مکرنے لگا شام آئی تو تیرا خیال آ گیا آئنہ میرے گھر کا سنورنے لگا خوشبوؤں کی طرح عطر دانوں میں تھے جب ہوا چل گئی سب بکھرنے لگا اک غزل کہہ سکوں گر اجازت ملے آنسوؤں کا یہ جھرنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2