Nahid Qamar

ناہید قمر

ناہید قمر کی نظم

    بجھا رت

    یہ میرے دل کی پگڈنڈی پہ چلتی نظم ہے کوئی کہ سیل وقت کی بھٹکی ہوئی اک لہر سا لمحہ جو آنچل پر ستارے اور ان آنکھوں میں آنسو ٹانک دیتا ہے ستاروں کی چمک اور آنسوؤں کی جھلملاہٹ میں کسی احساس گم گشتہ سے لکھا باب ہے شاید کوئی سیلاب ہے شاید یا اک بے نام سی رسم تعلق کا تراشا خواب ہے شاید جو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی زندگی تھی گمان سی

    کیا کوئی خبر آئے زندگی کے ترکش میں جتنے تیر باقی تھے میری بے دھیانی سے دل کی خوش گمانی سے ساز باز کرتے ہی روح میں اتر آئے دھند اتنی گہری ہے کچھ پتا نہیں چلتا خواب کے تعاقب میں کون سے زمانوں سے کتنے آسمانوں سے ہم گزر کے گھر آئے فصل گل کی باتیں بھی اب کہاں رہیں ممکن عمر کی کہانی ...

    مزید پڑھیے

    مہلت

    ابھی ٹھہرو ابھی سے اس تعلق کا کوئی عنوان مت سوچو ابھی تو اس کہانی میں محبت کے ادھورے باب کی تکمیل ہونے تک نظر کی دھوپ میں رکھے ہوئے خوابوں کے سارے ذائقے تبدیل ہونے تک بہت سے موڑ آنے ہیں مجھے ان سے گزرنے دو ذرا محسوس کرنے دو کہ میرے پاؤں کے نیچے زمیں نے رنگ بدلا ہے مرے لہجے میں اپنا ...

    مزید پڑھیے

    عدم خواب کے خواب میں

    چھان کر دیکھ لی ریگ دشت زیاں ڈھونڈ پائے نہ ہم دوسرا آسماں اجنبی موسموں کی اڑانوں میں ٹوٹے پروں کی طرح ہم جئے بھی تو کیا کس نے دیکھا ہمیں چشم نم کے کناروں پہ ٹھہرے ہوئے منظروں کی طرح رات کی آنکھ سے بہہ گئے خواب بھی ہم بھی معدوم کی ان سلی نیند میں یاد کے طاق میں اب تمنا کی لو کا نشاں ...

    مزید پڑھیے