جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا
جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا اس خواب کا سراب بھی اپنا نہیں ہوا اپنی صلیب سر پہ لیے چل رہے ہیں لوگ شہر سزا میں کوئی کسی کا نہیں ہوا کہنے کو جی سنبھل تو گیا ہے مگر کہیں اک درد ہے کہ جس کا مداوا نہیں ہوا اس نے مرے بغیر گزاری ہے زندگی اس آگہی کا زہر گوارا نہیں ہوا اب بھی ہے ...