Nahid Qamar

ناہید قمر

ناہید قمر کی غزل

    جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا

    جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا اس خواب کا سراب بھی اپنا نہیں ہوا اپنی صلیب سر پہ لیے چل رہے ہیں لوگ شہر سزا میں کوئی کسی کا نہیں ہوا کہنے کو جی سنبھل تو گیا ہے مگر کہیں اک درد ہے کہ جس کا مداوا نہیں ہوا اس نے مرے بغیر گزاری ہے زندگی اس آگہی کا زہر گوارا نہیں ہوا اب بھی ہے ...

    مزید پڑھیے