Naeem Zarrar Ahmad

نعیم ضرار احمد

نعیم ضرار احمد کی غزل

    منزل ہے تو اک رستۂ دشوار میں گم ہے

    منزل ہے تو اک رستۂ دشوار میں گم ہے رستہ ہے تو پیچ و خم دل دار میں گم ہے جس دین سے ملتا تھا خدا خانۂ دل میں ملا کے سجائے ہوئے بازار میں گم ہے اجزائے سفر ورطۂ حیرت میں پڑے ہیں رفتار ابھی صاحب رفتار میں گم ہے سائل ہیں کہ امڈے ہی چلے آتے ہیں پیہم وہ شوخ مگر اپنے ہی دیدار میں گم ...

    مزید پڑھیے

    ہر سچ بات میں ہم دونوں ہیں

    ہر سچ بات میں ہم دونوں ہیں الزامات میں ہم دونوں ہیں قریہ قریہ بستی بستی موضوعات میں ہم دونوں ہیں سسی پنوں لیلیٰ مجنوں قصہ جات میں ہم دونوں ہیں خبروں کا عنوان ہو جو بھی تفصیلات میں ہم دونوں ہیں سارے مسلک ایک ہوئے ہیں سب کی گھات میں ہم دونوں ہیں جن حالات سے ڈرتے تھے ہم ان ...

    مزید پڑھیے

    گن رہے ہیں دل ناکام کے دن

    گن رہے ہیں دل ناکام کے دن پھر وہی گردش ایام کے دن دکھ سے آغاز اور غم پہ اخیر ہم نے پائے بڑے انعام کے دن ہے یہی سوچ کر آرام ہمیں مل گئے ہیں انہیں آرام کے دن اب نہیں کام کوئی دنیا کا گویا یہ دن ہیں بڑے کام کے دن ہیں وہ پھر سے مرے نزدیک نعیمؔ آئے اندیشۂ انجام کے دن

    مزید پڑھیے

    جو اس آنکھ سے نکلا ہوگا

    جو اس آنکھ سے نکلا ہوگا آنسو میرے جیسا ہوگا اس کی یاد میں کھو کر خود کو ریزہ ریزہ چنتا ہوگا دل کے تہہ خانے میں کوئی سیڑھی سیڑھی اترا ہوگا شام ڈھلے اک ہوک سنی ہے یاد کا پنچھی لوٹا ہوگا دل کی اجڑی کھیتی میں بھی خواب سہانے بوتا ہوگا آؤ میخانے میں ڈھونڈیں کوئی تو ہم جیسا ہوگا

    مزید پڑھیے

    لوگ لڑتے رہے نام آئے طلب گاروں میں

    لوگ لڑتے رہے نام آئے طلب گاروں میں ہم کہ چپ چاپ کھڑے تھے ترے بیماروں میں ظلم کے ہم ہیں مخالف مگر اک دن کے لئے شور ہر روز نیا اٹھتا ہے اخباروں میں آج کل شکوۂ ناپید ہے جس غیرت کا خوب بکتی ہے مرے شہر کے بازاروں میں فخر کیا کم ہے کہ نیلامیٔ یوسف میں نعیمؔ تہی داماں تھے مگر تھے تو ...

    مزید پڑھیے

    ہو گئے ہم شکار پھولوں کے

    ہو گئے ہم شکار پھولوں کے ہیں غضب اختیار پھولوں کے میری تنہائیاں بتاتی ہیں پھول ہوتے ہیں یار پھولوں کے ایک منزل ہے مختلف راہیں رنگ ہیں بے شمار پھولوں کے آج پھولوں کے عالمی دن پر اس نے بھیجے ہیں خار پھولوں کے پھول ہیں شعر بوئے گل دھن ہے ہم ہیں نغمہ نگار پھولوں کے

    مزید پڑھیے

    جفائے عہد کا الزام الٹ بھی سکتا ہوں

    جفائے عہد کا الزام الٹ بھی سکتا ہوں اسے یقین نہ تھا میں پلٹ بھی سکتا ہوں میں اپنے عشق میں شاہیں مزاج رکھتا ہوں پلٹ تو جاتا ہوں لیکن جھپٹ بھی سکتا ہوں جنوں میں ظلم کی گردن اتار لیتا ہوں تو اک نگاہ محبت میں کٹ بھی سکتا ہوں عدوئے شہر میں بارود ہوں محبت کا حدوں سے بات بڑھے گی تو پھٹ ...

    مزید پڑھیے

    مجھے رفعتوں کا خمار تھا سو نہیں رہا

    مجھے رفعتوں کا خمار تھا سو نہیں رہا ترے دوستوں میں شمار تھا سو نہیں رہا جسے اب سمجھتے ہو بار دیدہ و جان پہ کبھی راہ منزل یار تھا سو نہیں رہا تری یاد بھی تیری یاد تھی سو چلی گئی ترا غم ہی میرا قرار تھا سو نہیں رہا رہ دوستی کے مسافرو ذرا دیکھ کر اسی رہ کا میں بھی سوار تھا سو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کسی محل میں نہ شاہوں کی آن بان میں ہے

    کسی محل میں نہ شاہوں کی آن بان میں ہے سکون جو کسی ڈھابے کے سائبان میں ہے میں اس مقام پر ہوں جیسے کوئی خالی ہاتھ نگاہ حسرت و ارماں لئے دکان میں ہے درندے شہر میں آباد ہو گئے سارے سنا ہے ساتھ کا جنگل بڑی امان میں ہے یہ جانتا ہے پلٹ کر اسے نہیں آنا وہ اپنی زیست کی کھنچتی ہوئی کمان ...

    مزید پڑھیے

    تیری آنکھوں کے دو ستارے تھے

    تیری آنکھوں کے دو ستارے تھے جن پہ ہم دو جہان ہارے تھے ساری تعریف تھی اسے زیبا جتنے بہتان تھے ہمارے تھے جتنی آنکھیں تھیں ساری میری تھیں جتنے منظر تھے سب تمہارے تھے دن وہی عمر بھر کا حاصل ہیں جو تری یاد میں گزارے تھے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2