Nadir Kakorvi

نادر کاکوری

نادر کاکوری کی غزل

    پھیر لیتا ہے مکدر ہو کے منہ جس سے کہیں

    پھیر لیتا ہے مکدر ہو کے منہ جس سے کہیں ہائے جو جی پر گزرتی ہے وہ ہم کس سے کہیں مانع عرض تمنا کیوں نہ ہو رشک رقیب ان سے ہم کہنے نہ پائیں ان کے مونس سے کہیں نادرؔ اس محفل میں ہیں وہ نام کے صدر انجمن آپ کو کہنا ہو جو کچھ اہل مجلس سے کہیں

    مزید پڑھیے

    شکایت کر کے غصہ اور ان کا تیز کرنا ہے

    شکایت کر کے غصہ اور ان کا تیز کرنا ہے ابھی تو گفتگوئے مصلحت آمیز کرنا ہے یہ دنیا جائے آسائش نہیں ہے آزمائش ہے یہاں جو سختیاں تجھ پر پڑیں انگیز کرنا ہے غزل خوانی کو تو اس بزم میں آیا نہیں نادرؔ تجھے یاں وعظ کہنا پند سود آمیز کرنا ہے

    مزید پڑھیے

    اب نہ حسرت نہ پاس ہے دل میں (ردیف .. ا)

    اب نہ حسرت نہ پاس ہے دل میں کوئی بھی اس مکان میں نہ رہا کیا شکایت جو کٹ گئے گاہک مال ہی جب دکان میں نہ رہا مر کے رہنا پڑا اب اس میں آہ جیتے جی جس مکان میں نہ رہا نادرؔ افسوس قدر دان سخن ایک ہندوستان میں نہ رہا

    مزید پڑھیے

    کدورت بڑھ کے آخر کو نکلتی ہے فغاں ہو کر

    کدورت بڑھ کے آخر کو نکلتی ہے فغاں ہو کر زمیں یہ سر پر آ جاتی ہے اک دن آسماں ہو کر مرے نقش قدم نے راہ میں کانٹے بچھائے ہیں بتائیں تو وہ گھر غیروں کے جائیں گے کہاں ہو کر خدا سے سرکشی کی پیر زاہد اس قدر تو نے کہ تیرا تیر سا قد ہو گیا ہے اب کماں ہو کر کوئی پوچھے کہ میت کا بھی تم کچھ ...

    مزید پڑھیے