نادم ندیم کی غزل

    ہم جو دیوار پہ تصویر بنانے لگ جائیں

    ہم جو دیوار پہ تصویر بنانے لگ جائیں تتلیاں آ کے ترے رنگ چرانے لگ جائیں پھر نہ ہو مخملی تکیے کی ضرورت مجھ کو تیرے بازو جو کبھی میرے سرہانے لگ جائیں چاند تاروں میں بھی تب نور اضافی ہو جائے چھت پہ جب ذکر ترا یار سنانے لگ جائیں چند سکوں پہ تم اترائے ہوئے پھرتے ہو ہاتھ مفلس کے کہیں ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے جانے کا ہم کو ملال تھوڑی ہے

    تمہارے جانے کا ہم کو ملال تھوڑی ہے اداسیوں میں تمہارا خیال تھوڑی ہے مناؤں کس طرح ہولی میں دوستوں کے ساتھ ہیں سب کے ہاتھ میں خنجر گلال تھوڑی ہے مجھے یہ غم ہے وہ اب ساتھ ہے رقیبوں کے یہ آنکھ اس کے بچھڑنے سے لال تھوڑی ہے سوال یہ ہے ہوا آئی کس اشارے پر چراغ کس کے بجھے یہ سوال تھوڑی ...

    مزید پڑھیے

    کئی دن سے کوئی ہچکی نہیں ہے

    کئی دن سے کوئی ہچکی نہیں ہے وو ہم کو یاد اب کرتی نہیں ہے سوا تیرے جدھر سے کوئی آئے ہمارے دل میں وہ کھڑکی نہیں ہے میں جس دریا میں کانٹا ڈالتا تھا سنا ہے اب وہاں مچھلی نہیں ہے تھیں جتنی سب کنویں میں پھینک آئے ہمارے پاس اب نیکی نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    چھو سکوں تجھ کو یہ اوقات کبھی تو ہوگی

    چھو سکوں تجھ کو یہ اوقات کبھی تو ہوگی اور میسر بھی تری ذات کبھی تو ہوگی چاند کے ساتھ میں جو چھت پہ کبھی گزرے گی ساتھ تم اور وہ حسیں رات کبھی تو ہوگی ایک مدت سے یہی آس لیے بیٹھا ہوں تجھ میں بھی شدت جذبات کبھی تو ہوگی ہجر جاناں میں بھی آنسو نہیں آئے میرے خشک صحراؤں میں برسات کبھی ...

    مزید پڑھیے

    کیا خبر کس کو کب کہاں دے دے

    کیا خبر کس کو کب کہاں دے دے اور دے دے تو دو جہاں دے دے ہے یہی عشق کی نماز کا وقت ہجر اٹھ جا ذرا اذاں دے دے یہ جو بچے ہوا میں کودتے ہیں ان کے ہاتھوں میں آسماں دے دے کب تلک زندگی سفر میں رہے قبر ہی دے دے پر مکاں دے دے پھول کتنے اداس لگتے ہیں اے خدا ان کو تتلیاں دے دے یہ مرے حق میں ...

    مزید پڑھیے

    غور سے مجھ کو دیکھتا ہے کیا

    غور سے مجھ کو دیکھتا ہے کیا میرے چہرے پہ کچھ لکھا ہے کیا میری آنکھوں میں جھانکتا ہے کیا تجھ کو ان میں ہی ڈوبنا ہے کیا میرے ہونٹوں کو چھو لیا اس نے کیا بتاؤں مجھے ہوا ہے کیا اے کبوتر ذرا بتا مجھ کو ان کی چھت پر بھی بیٹھتا ہے کیا پر کٹے پنچھیوں سے پوچھتے ہو تم میں اڑنے کا حوصلہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    سر اٹھانے کی تو ہمت نہیں کرنے والے

    سر اٹھانے کی تو ہمت نہیں کرنے والے یہ جو مردہ ہیں بغاوت نہیں کرنے والے مفلسی لاکھ سہی ہم میں وہ خودداری ہے حاکم وقت کی خدمت نہیں کرنے والے ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے ہاتھ آندھی سے ملا آئے اسی دور کے لوگ یہ چراغوں کی حفاظت نہیں کرنے ...

    مزید پڑھیے