Nadeem Mahir

ندیم ماہر

ندیم ماہر کی غزل

    آنکھوں سے مناظر کا تسلسل نہیں ٹوٹا

    آنکھوں سے مناظر کا تسلسل نہیں ٹوٹا میں لٹ گیا پر تیرا تغافل نہیں ٹوٹا تشنہ تھا میں بہتا رہا دریا مرے آگے لیکن میرے ہونٹوں کا تحمل نہیں ٹوٹا صدیوں سے بغل گیر ہیں ایک دوجے سے لیکن دریا کے کناروں کا تجاہل نہیں ٹوٹا الجھا ہوں کئی بار مسائل کے بھنور میں میں ٹوٹ گیا میرا توکل نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تری یادوں کی نقاشی کھرچ کر پھینک آئے ہیں

    تری یادوں کی نقاشی کھرچ کر پھینک آئے ہیں جھلستی ریت پر ہم اک سمندر پھینک آئے ہیں عقیق و نیلم و لعل و جواہر پھینک آئے ہیں سمندر میں عجب منظر شناور پھینک آئے ہیں تری یادیں تری باتیں سبھی اوراق پارینہ ہم اک اک کر کے سب دل سوز منظر پھینک آئے ہیں تلاطم ہو کہ طوفاں ہو یہ دریا پار ...

    مزید پڑھیے

    سورج اور مہتاب بکھرتے جاتے ہیں

    سورج اور مہتاب بکھرتے جاتے ہیں جینے کے اسباب بکھرتے جاتے ہیں اطلس اور کم خواب بکھرتے جاتے ہیں گویا کہ احباب بکھرتے جاتے ہیں قطرہ قطرہ نیند پگھلتی رہتی ہے ریزہ ریزہ خواب بکھرتے جاتے ہیں دلدل اتنی پھیل گئی ہے رستے میں اب تو سب اعصاب بکھرتے جاتے ہیں اک انبار آب و گل ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    گرتے گرتے سنبھل رہا ہوں میں

    گرتے گرتے سنبھل رہا ہوں میں دسترس سے نکل رہا ہوں میں دھوپ کا بھی عجب تماشہ ہے اپنے سائے پہ چل رہا ہوں میں گفتگو ہے میری گلابوں سی شخصیت میں کنول رہا ہوں میں دھوپ جب سے ملی ہے چہرے پر رفتہ رفتہ پگھل رہا ہوں میں گرد میرے ہے وحشتوں کا ہجوم ایک جنگل میں پل رہا ہوں میں ایک ہچکی کا ...

    مزید پڑھیے

    گرد و غبار یوں بڑھا چہرہ بکھر گیا

    گرد و غبار یوں بڑھا چہرہ بکھر گیا ملبوس تھا میں جس میں لبادہ بکھر گیا کل رات جگنوؤں کی سمندر پہ بھیڑ تھی لگتا تھا روشنی کا جزیرہ بکھر گیا دہشت تھی اس قدر کہ مناظر پگھل گئے گر کر بدن سے خود مرا سایہ بکھر گیا منظر میں اور نظر میں تصادم تھا رات بھر جب بھی اٹھی نگاہیں دریچہ بکھر ...

    مزید پڑھیے

    ایک خوف و ہراس پانی میں

    ایک خوف و ہراس پانی میں سارے منظر اداس پانی میں بھول بیٹھا میں ذائقے سارے کس قدر تھی مٹھاس پانی میں جانے کس روز غرق ہو جائے اس زمیں کی اساس پانی میں ڈوبتے ہیں کبھی ابھرتے ہیں سب دلیل و قیاس پانی میں

    مزید پڑھیے

    ہم بزرگوں کی آن چھوڑ آئے

    ہم بزرگوں کی آن چھوڑ آئے خاندانی مکان چھوڑ آئے اس قبیلے میں سارے گونگے تھے ہم جہاں پر زبان چھوڑ آئے اس کا دروازہ بند پایا تو دستکوں کے نشان چھوڑ آئے روٹی کپڑے مکان کی خاطر روٹی کپڑا مکان چھوڑ آئے ایک اس کو تلاش کرنے میں ہم زمیں آسمان چھوڑ آئے اب سفر ہے یقین کی جانب وسوسے اور ...

    مزید پڑھیے

    زخموں کو کریدا ہے تو ماضی نکل آیا

    زخموں کو کریدا ہے تو ماضی نکل آیا سوکھے ہوئے دریاؤں سے پانی نکل آیا اس شخص کو پڑھنے میں بڑی چوک ہوئی تھی وہ دوست تھا جو دشمن جانی نکل آیا تشنہ تھے بہت دھوپ میں بھیگے ہوئے منظر کل رات تو سورج سے ہی پانی نکل آیا جو شخص نہیں جانتا اسلام کے معنی حیرت ہے کہ اسلام کا داعی نکل آیا گو ...

    مزید پڑھیے

    بام و در پر رینگتی پرچھائیاں

    بام و در پر رینگتی پرچھائیاں مجھ سے اب مانوس ہیں تنہائیاں اب سمندر بھی بہت سطحی ہوئے اب رہیں ان میں نہ وہ گہرائیاں خانۂ دل کو کرو آباد پھر مجھ کو لوٹا دو وہی رعنائیاں اک تھکن سی جسم پر طاری ہوئی ٹوٹ کر گرنے لگیں پرچھائیاں

    مزید پڑھیے