حقیقتوں سے مگر منحرف رہا نہ گیا
حقیقتوں سے مگر منحرف رہا نہ گیا سو شہر خواب سے اپنا بھی آب و دانہ گیا حریف ذات عجب تھے کہ عمر بھر خود کو برا سمجھتے رہے پر برا کہا نہ گیا جو منتشر ہوں تو حیرت نہ کر کہ دریا میں بھنور کے بعد کسی لہر میں بہا نہ گیا عجیب لمس تھا اب کے جنوں کے ہاتھوں میں قبائے رنگ میں خوشبو سے پھر رہا ...