Muzaffar Mumtaz

مظفر ممتاز

مظفر ممتاز کی غزل

    حقیقتوں سے مگر منحرف رہا نہ گیا

    حقیقتوں سے مگر منحرف رہا نہ گیا سو شہر خواب سے اپنا بھی آب و دانہ گیا حریف ذات عجب تھے کہ عمر بھر خود کو برا سمجھتے رہے پر برا کہا نہ گیا جو منتشر ہوں تو حیرت نہ کر کہ دریا میں بھنور کے بعد کسی لہر میں بہا نہ گیا عجیب لمس تھا اب کے جنوں کے ہاتھوں میں قبائے رنگ میں خوشبو سے پھر رہا ...

    مزید پڑھیے

    کس خواب کا اثر ہے جو اب تک نظر میں ہے

    کس خواب کا اثر ہے جو اب تک نظر میں ہے منزل کی ایک شبیہ غبار سفر میں ہے سمجھو کہ ایک پرتو منظر نہیں تمام ہے تیرگی وہ راز جو تاب گہر میں ہے دریا کی وسعتوں سے جو خائف رہے وہ لوگ سمجھے نہیں کہ ایک کنارہ بھنور میں ہے ہم منزل یقیں پہ نہ ٹھہرے یہ جان کر خلق خدا کے ساتھ خدا بھی سفر میں ...

    مزید پڑھیے

    خود سے اکتائے ہوئے اپنا برا چاہتے ہیں

    خود سے اکتائے ہوئے اپنا برا چاہتے ہیں بس کہ اب اہل وفا ترک وفا چاہتے ہیں ان کے ایماں پہ رہا ہے تری قدرت کا مدار یہی عشاق جو معتوب ہوا چاہتے ہیں ہم کہ خود‌ سوز ہیں جینے نہیں دیتے خود کو تو میسر ہے تو کچھ تیرے سوا چاہتے ہیں پتھرو آؤ کہ نادم ہیں شبیہیں خود پر آئنے اپنی جسارت کی سزا ...

    مزید پڑھیے

    سکوں اگر ہے تو بس لطف انتظار میں ہے

    سکوں اگر ہے تو بس لطف انتظار میں ہے کہ بے بسی تو بہ ہر حال اختیار میں ہے یہ خوف بھی ہے کہ اشکوں میں ڈھل نہ جائے کہیں وہ ایک آہ جو نغمے کی انتظار میں ہے تھکا دیا ہے خود اپنی تلاش نے مجھ کو کہ میرا اصل مرے جھوٹ کے حصار میں ہے وہ دشمنوں کا ہو لشکر کہ دوستوں کا ہجوم یہ راز ہے جو ابھی ...

    مزید پڑھیے

    مجھی میں ڈوب گیا دشمنی نبھاتے ہوئے

    مجھی میں ڈوب گیا دشمنی نبھاتے ہوئے خدا بھی ہار گیا مجھ کو آزماتے ہوئے بھٹک نہ جائے وہ دن رات کے اندھیرے میں میں بجھ رہا ہوں جسے راستہ دکھاتے ہوئے گزر رہے ہیں شکستوں کے بھیس میں ہم بھی نئے سفر کے لئے منزلیں بناتے ہوئے الجھ رہا ہے وہ مجھ سے حقیقتوں کی طرح میں جھوٹ بول رہا ہوں اسے ...

    مزید پڑھیے

    رات کے پردے میں اک نور کا سیلاب بھی ہے

    رات کے پردے میں اک نور کا سیلاب بھی ہے دشت ظلمت میں کہیں وادیٔ مہتاب بھی ہے بہر پرسش ہی سہی آج ترا آ جانا ایک ہی وقت میں تعبیر بھی ہے خواب بھی ہے اصلیت دیکھ مرے چاک گریباں پہ نہ جا عشق چاہے تو بہت صاحب اسباب بھی ہے تو نے سوچا ہے کبھی جلوۂ ارزاں کے اسیر جس کو مہتاب سمجھتا ہے وہ ...

    مزید پڑھیے