آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں
آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں کون سی شب ہے کہ گرمی اپنی محفل میں نہیں بزم کی کثرت سے اندیشہ مرے دل میں نہیں دل میں اس کی ہے جگہ میرے جو محفل میں نہیں پنجۂ مژگان تر نے یہ اڑائیں دھجیاں تار باقی ایک بھی دامان ساحل میں نہیں خون ناحق کا ہمارے داغ مٹنے کا نہیں تیغ میں ہوگا ...