Mushtaq Aazar Fareedi

مشتاق آذر فریدی

مشتاق آذر فریدی کی غزل

    فاصلہ جب مجھے احساس تھکن بخشے گا

    فاصلہ جب مجھے احساس تھکن بخشے گا پاؤں کو پھول بھی کانٹوں کی چبھن بخشے گا کتنے سورج اسی جذبے سے اگائے میں نے کوئی سورج تو میرے گھر کو کرن بخشے گا چاہتا ہوں کہ کبھی مجھ کو بھی بستر ہو نصیب جانے کس روز خدا مجھ کو بدن بخشے گا لوگ کہتے ہیں کہ صحرا کو گلستاں کہہ دو اس کے بدلے میں وہ ...

    مزید پڑھیے

    دیوانہ ہوں بکھرے موتی چنتا ہوں

    دیوانہ ہوں بکھرے موتی چنتا ہوں لمحہ لمحہ جوڑ کے صدیاں بنتا ہوں تنہا کمرے سونا آنگن رات اداس پھر بھی گھر میں سرگوشی سی سنتا ہوں مجھ کو دیمک چاٹ رہی ہے سوچوں کی میں اپنے اندر ہی اندر گھنتا ہوں ہنستے پھول کہاں ہیں میری قسمت میں میں تو بس مرجھائی کلیاں چنتا ہوں کہنے کو خاموش ہے ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہی بھائی کو ہمسایہ بناتے کیوں ہو

    اپنے ہی بھائی کو ہمسایہ بناتے کیوں ہو صحن کے بیچ میں دیوار لگاتے کیوں ہو اک نہ اک دن تو انہیں ٹوٹ بکھرنا ہوگا خواب پھر خواب ہیں خوابوں کو سجاتے کیوں ہو کون سنتا ہے یہاں کون ہے سننے والا یہ سمجھتے ہو تو آواز اٹھاتے کیوں ہو خود کو بھولے ہوئے گزرے ہیں زمانے یارو اب مجھے تم مرا ...

    مزید پڑھیے

    اپنی سوچیں شکست و خام نہ کر

    اپنی سوچیں شکست و خام نہ کر چل پڑا ہے تو پھر قیام نہ کر میں بھی حساس دل کا مالک ہوں سارے احساس اپنے نام نہ کر جسم چاہے غلام ہو جائے ذہنیت کو مگر غلام نہ کر میں خود اپنی نظر سے گر جاؤں تو مرا اتنا احترام نہ کر تیرے پیچھے غبار اڑنے لگے خود کو تو اتنا تیز گام نہ کر لوگ مشکوک ہو چلے ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہی بھائی کو ہمسایہ بناتے کیوں ہو

    اپنے ہی بھائی کو ہمسایہ بناتے کیوں ہو صحن کے بیچ میں دیوار لگاتے کیوں ہو اک نہ اک دن تو انہیں ٹوٹ بکھرنا ہوگا خواب پھر خواب ہیں خوابوں کو سجاتے کیوں ہو کون سنتا ہے یہاں کون ہے سننے والا یہ سمجھتے ہو تو آواز اٹھاتے کیوں ہو خود کو بھولے ہوئے گزرے ہیں زمانے یارو اب مجھے تم مرا ...

    مزید پڑھیے

    میں سوزش غم دوراں سے یوں جلا خاموش

    میں سوزش غم دوراں سے یوں جلا خاموش کہ جیسے بزم میں جلتا ہو اک دیا خاموش یہ اور بات کہ ہونٹوں پہ لفظ بکھرے تھے مگر تھا بولنے والوں کا مدعا خاموش ابھی نہ چھیڑئیے خوابیدہ موسموں کا مزاج ابھی ہے رات کے آنچل میں ہر فضا خاموش مری سرشت میں خاموشیوں کا زہر نہ گھول نہ رہ سکے گا مرا ذوق ...

    مزید پڑھیے

    لوگ بیٹھے ہیں یہاں ہاتھوں میں خنجر لے کر

    لوگ بیٹھے ہیں یہاں ہاتھوں میں خنجر لے کر تم کہاں آ گئے یہ شاخ گل تر لے کر بھیگے بھیگے سے مرے گھر کے در و بام ملے شاید آیا تھا یہاں کوئی سمندر لے کر اب مجھے اور کسی شے کی تمنا نہ رہی مطمئن ہوں تری دہلیز کا پتھر لے کر میری قسمت میں سلگنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا کرو گے بھلا تم میرا ...

    مزید پڑھیے

    شاہکار حسن فطرت سازشوں میں بٹ گیا

    شاہکار حسن فطرت سازشوں میں بٹ گیا آئینہ ٹوٹا تو چہرہ آئنوں میں بٹ گیا رات مقتل میں خدا جانے وہ کس کا قتل تھا جو تبرک بن کے سارے قاتلوں میں بٹ گیا میں کتاب زندگی کا ایک لفظ مستقل وقت نے تشریح کی تو حاشیوں میں بٹ گیا لاکھ اب دنیا منائے اس کا جشن ارتکاز وہ تو ریزہ ریزہ سارے دوستوں ...

    مزید پڑھیے

    ترے جہاں سے الگ اک جہان چاہتا ہوں

    ترے جہاں سے الگ اک جہان چاہتا ہوں نئی زمین نیا آسمان چاہتا ہوں بدن کی قید سے باہر تو جا نہیں سکتا اسی حصار میں رہ کر اڑان چاہتا ہوں خموش رہنے پہ اب دم سا گھٹنے لگتا ہے مرے خدا میں دہن میں زبان چاہتا ہوں کوئی شجر ہی سہی دھوپ سے نجات تو ہو یہ تم سے کس نے کہا سائبان چاہتا ہوں یہ ...

    مزید پڑھیے