لہو فشاں ہیں ورق اور دل تپیدہ ہیں
لہو فشاں ہیں ورق اور دل تپیدہ ہیں ادیب شہر کے اب بھی قلم بریدہ ہیں نہ اذن آہ و فغاں ہے کہ نوحۂ ہستی کسے سنائیں جو الفاظ خوں چکیدہ ہیں کبھی زبانیں نکل آئیں خارزاروں کی شجر چمن کے خموشی سے سر خمیدہ ہیں نہیں معاف میرے گھر میں جرم حق گوئی سنبھل کے دیکھ شہر میں جو سر کشیدہ ہیں بس ...