Munawwar Jameel

منور جمیل

  • 1947

منور جمیل کی نظم

    فیصلہ

    میرے ہاتھ پر لکھ دو فیصلہ جدائی کا اتنا مختصر لکھنا جتنی تم نے مجھ جیسے کم نصیب شاعر سے مختصر محبت کی اتنا مختصر لکھو فیصلہ جدائی کا جتنی مجھ میں سانسیں ہیں جتنی میری ہستی ہے جس میں آج سے پہلے وصل کے گلابوں کی روشنی مہکتی تھی فیصلہ جدائی کا اب طویل مت لکھنا جس طرح مری چاہت جس طرح ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو جا چکے جاناں

    اب یہ کیسی الجھن ہے اب یہ کیسا جھگڑا ہے بات تھی محبت کی اور تم محبت پر ایک ہی محبت پر کب یقین رکھتے تھے تم تو ہر گھڑی اپنی دلبرانہ آنکھوں میں اک نئی رفاقت کا خواب لے کے اٹھتے تھے اور اپنی شاموں میں اپنے خواب و خواہش کے بے لباس جذبوں کو شوق سے سجاتے تھے اور ایسے عالم میں جسم و جاں کے ...

    مزید پڑھیے

    معذرت

    کوئی نظم کیسے کہیں کہ ہم نہ چراغ ہیں نہ مثال حرف گلاب ہیں نہ خیال ہیں نہ کسی کی آنکھ کا خواب ہیں کسی گم شدہ سی وفاؤں کی کسی شام میں جو بچھڑ گئے تو بچھڑنے والوں کی یاد میں کہیں ریت ہیں کہیں اشک غم کا غبار ہیں وہ جو دشت ہجر کا ہے کہیں اسی دشت شام جدائی کے یہ جو داغ ہیں تری یاد کے ترے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں بھول آیا ہوں

    جس کمرے میں تم دونوں اب پہروں تنہا رہتے ہو اس کمرے میں غور سے دیکھو میری کتنی یادوں باتوں اور کتابوں کے چہروں میں حرف وفا کے چھپے ہوئے ہیں ظالم گرد پڑی ہے ان پر اس کمرے کی اک اک شے کو غور سے دیکھو وہیں میں پاگل اپنی دونوں آنکھیں رکھ کر بھول آیا ہوں

    مزید پڑھیے

    بے فیض موسم کی رفاقت میں

    خداوندا تجھے معلوم ہے میں نے یہ اپنی عمر کس بے فیض موسم کی رفاقت میں گزاری ہے یقین و بے یقینی کی اذیت میں گزاری ہے خداوندا تجھے معلوم ہے میرے ہر اک جانب تری سو نعمتیں بکھری ہوئی تھیں ہزاروں راستے تھے منزلیں تھیں روشنی تھی رنگ تھے خوشبو تھی پھولوں سے لدی شاخیں تھیں خواہش ...

    مزید پڑھیے