Munawwar Jameel

منور جمیل

  • 1947

منور جمیل کے تمام مواد

1 غزل (Ghazal)

    نظر عذابوں میں گھر گئی ہے سخن سرابوں میں آ گیا ہے

    نظر عذابوں میں گھر گئی ہے سخن سرابوں میں آ گیا ہے سنا ہے اب کے بہار موسم خزاں کی باتوں میں آ گیا ہے یہ کیا غضب ہے کہ جس نے عہد بہار چاہا نہ عشق دیکھا نظام ہجر و وصال سارا اسی کے ہاتھوں میں آ گیا ہے بہار تو اک مغالطہ ہے خزاں کی روپوش حیرتوں کا جو اس طلسم جہاں سے گزرا وہ داستانوں میں ...

    مزید پڑھیے

5 نظم (Nazm)

    فیصلہ

    میرے ہاتھ پر لکھ دو فیصلہ جدائی کا اتنا مختصر لکھنا جتنی تم نے مجھ جیسے کم نصیب شاعر سے مختصر محبت کی اتنا مختصر لکھو فیصلہ جدائی کا جتنی مجھ میں سانسیں ہیں جتنی میری ہستی ہے جس میں آج سے پہلے وصل کے گلابوں کی روشنی مہکتی تھی فیصلہ جدائی کا اب طویل مت لکھنا جس طرح مری چاہت جس طرح ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو جا چکے جاناں

    اب یہ کیسی الجھن ہے اب یہ کیسا جھگڑا ہے بات تھی محبت کی اور تم محبت پر ایک ہی محبت پر کب یقین رکھتے تھے تم تو ہر گھڑی اپنی دلبرانہ آنکھوں میں اک نئی رفاقت کا خواب لے کے اٹھتے تھے اور اپنی شاموں میں اپنے خواب و خواہش کے بے لباس جذبوں کو شوق سے سجاتے تھے اور ایسے عالم میں جسم و جاں کے ...

    مزید پڑھیے

    معذرت

    کوئی نظم کیسے کہیں کہ ہم نہ چراغ ہیں نہ مثال حرف گلاب ہیں نہ خیال ہیں نہ کسی کی آنکھ کا خواب ہیں کسی گم شدہ سی وفاؤں کی کسی شام میں جو بچھڑ گئے تو بچھڑنے والوں کی یاد میں کہیں ریت ہیں کہیں اشک غم کا غبار ہیں وہ جو دشت ہجر کا ہے کہیں اسی دشت شام جدائی کے یہ جو داغ ہیں تری یاد کے ترے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں بھول آیا ہوں

    جس کمرے میں تم دونوں اب پہروں تنہا رہتے ہو اس کمرے میں غور سے دیکھو میری کتنی یادوں باتوں اور کتابوں کے چہروں میں حرف وفا کے چھپے ہوئے ہیں ظالم گرد پڑی ہے ان پر اس کمرے کی اک اک شے کو غور سے دیکھو وہیں میں پاگل اپنی دونوں آنکھیں رکھ کر بھول آیا ہوں

    مزید پڑھیے

    بے فیض موسم کی رفاقت میں

    خداوندا تجھے معلوم ہے میں نے یہ اپنی عمر کس بے فیض موسم کی رفاقت میں گزاری ہے یقین و بے یقینی کی اذیت میں گزاری ہے خداوندا تجھے معلوم ہے میرے ہر اک جانب تری سو نعمتیں بکھری ہوئی تھیں ہزاروں راستے تھے منزلیں تھیں روشنی تھی رنگ تھے خوشبو تھی پھولوں سے لدی شاخیں تھیں خواہش ...

    مزید پڑھیے