نظر عذابوں میں گھر گئی ہے سخن سرابوں میں آ گیا ہے
نظر عذابوں میں گھر گئی ہے سخن سرابوں میں آ گیا ہے سنا ہے اب کے بہار موسم خزاں کی باتوں میں آ گیا ہے یہ کیا غضب ہے کہ جس نے عہد بہار چاہا نہ عشق دیکھا نظام ہجر و وصال سارا اسی کے ہاتھوں میں آ گیا ہے بہار تو اک مغالطہ ہے خزاں کی روپوش حیرتوں کا جو اس طلسم جہاں سے گزرا وہ داستانوں میں ...