مجاہد فراز کی غزل

    دعوے بلندیوں کے کریں کس زباں سے ہم

    دعوے بلندیوں کے کریں کس زباں سے ہم خود آ گئے زمین پہ جب آسماں سے ہم ہم کو بھی مصلحت نے سیاسی بنا دیا پہلے کہاں مکرتے تھے اپنی زباں سے ہم دونوں قدم بڑھائیں مٹانے کو نفرتیں آغاز تم وہاں سے کرو اور یہاں سے ہم رستے کی ہر نگاہ تجھے پوچھتی ملی گزرے ترے بغیر جدھر سے جہاں سے ہم ہم دھوپ ...

    مزید پڑھیے

    اس قدر سچائی سے بیزار دنیا ہو گئی

    اس قدر سچائی سے بیزار دنیا ہو گئی زد پہ گردن ہے مری، تلوار دنیا ہو گئی اس کے دل میں نیم گولی، شہد باتوں میں رکھے پوچھتے کیا ہو میاں! مکار دنیا ہو گئی بے حیائی بے وفائی بے یقینی بے حسی کیسے کیسے خنجروں کی دھار دنیا ہو گئی مصلحت نے کس قدر تبدیل اس کو کر دیا غیر میں ہوں ان دنوں غم ...

    مزید پڑھیے

    وہ آزمائیں مجھے ان کو آزماؤں میں

    وہ آزمائیں مجھے ان کو آزماؤں میں پھر آندھیوں کے لئے اک دیا جلاؤں میں پھر اپنی یاد کی پروائیاں بھی قید کرے وہ چاہتا ہے اگر اس کو بھول جاؤں میں اداس آنکھوں کو سوغات دے کے اشکوں کی یہ اس نے خوب کہا ہے کہ مسکراؤں میں میاں یہ زیست کی سچائیوں کے قصے ہیں کوئی فسانہ نہیں ہے جسے سناؤں ...

    مزید پڑھیے

    مشقت کی تپش میں جسم کا لوہا گلاتے ہیں

    مشقت کی تپش میں جسم کا لوہا گلاتے ہیں بڑی مشکل سے اس مٹی کو ہم سونا بناتے ہیں ترستے ہیں کہیں کچھ لوگ روٹی کے نوالوں کو کہیں ہر شام شہزادے شرابوں میں نہاتے ہیں کبھی سوکھے ہوئے پیڑوں کا وہ ماتم نہیں کرتے ہوں جن کے ذہن تعمیری نئے پودے لگاتے ہیں خدایا رحم ان معصوم بچوں کے لڑکپن ...

    مزید پڑھیے

    پتا چلا کہ مری زندگی میں لکھا تھا

    پتا چلا کہ مری زندگی میں لکھا تھا وہ جس کا نام کبھی ڈائری میں لکھا تھا وہ کس قبیلے سے ہے کون سے گھرانے سے سب اس کے لہجے کی شائستگی میں لکھا تھا نظر میں آئے بہت سے سجے بنے چہرے مگر جو حسن تری سادگی میں لکھا تھا وہ مجھ غریب کی حالت پہ اور کیا کہتا تمام زہر تو اس کی ہنسی میں لکھا ...

    مزید پڑھیے

    عمر گزری اسی میدان کو سر کرنے میں

    عمر گزری اسی میدان کو سر کرنے میں جو مکاں ہم کو ملا تھا اسے گھر کرنے میں عشق آسان کہاں عمر گزر جاتی ہے اپنی جانب کسی غافل کی نظر کرنے میں آزمائش سے تو بے چاری غزل بھی گزری اک شہنشاہ بہادر کو ظفر کرنے میں صبح کے بعد بھی کچھ لوگوں کی نیندیں نہ کھلیں اور ہم ٹوٹ گئے شب کو سحر کرنے ...

    مزید پڑھیے

    بدن کی قید سے باہر ٹھکانا چاہتا ہے

    بدن کی قید سے باہر ٹھکانا چاہتا ہے عجیب دل ہے کہیں اور جانا چاہتا ہے ابھی دکھاؤ نہ تصویر زندگی اس کو یہ بچپنا ہے ابھی مسکرانا چاہتا ہے ہر ایک رت نہیں بھاتی ہماری آنکھوں کو ہمارا خواب بھی موسم سہانا چاہتا ہے گھٹن ہو دل میں تو پھر شاعری نہیں ہوتی غزل کا شعر فضا شاعرانہ چاہتا ...

    مزید پڑھیے

    بیچ سمندر رہتا ہوں

    بیچ سمندر رہتا ہوں لیکن پھر بھی پیاسا ہوں اپنے بچوں کی نظروں میں میں دو دن کا بچہ ہوں ظلم سہوں خاموش رہوں کیا میں ایک فرشتہ ہوں صدیاں پڑھ کر دنیا کی لمحے اس کے سمجھا ہوں سچ کہنے کی عادت ہے یوں میں مجرم ٹھہرا ہوں بھیڑ میں تنہا رہنے کا زہر ہمیشہ پیتا ہوں سب اپنے سے لگتے ...

    مزید پڑھیے

    سلسلہ لفظوں کی سوغات کا بھی ٹوٹ گیا

    سلسلہ لفظوں کی سوغات کا بھی ٹوٹ گیا رابطہ خط سے ملاقات کا بھی ٹوٹ گیا ماں کی آغوش میں الفت کی روانی پا کر باندھ ٹھہرے ہوئے جذبات کا بھی ٹوٹ گیا احترام اپنے بزرگوں کا ادب چھوٹوں کا اب چلن ایسی روایات کا بھی ٹوٹ گیا رات کے ماتھے پہ سورج نے سحر لکھ دی ہے آسرا اس سے ملاقات کا بھی ...

    مزید پڑھیے