Muhammad Ayyub Zauqi

محمد ایوب ذوقی

محمد ایوب ذوقی کی غزل

    ہم ہجر کی کالی راتوں میں جب بستر خواب پہ جاتے ہیں

    ہم ہجر کی کالی راتوں میں جب بستر خواب پہ جاتے ہیں ماضی کے تمام مصائب اک اک کر کے سامنے آتے ہیں پھر مستقبل کے بھیانک چہرے پر جب نظریں پڑتی ہیں اس ہیبت ناک تصور سے ہم ڈرتے ہیں گھبراتے ہیں غیروں سے وہ ملتے رہتے ہیں خود جا جا کر تنہائی میں میرا کیا ہے ذکر بھلا مرے سائے سے بھی شرماتے ...

    مزید پڑھیے

    دور رہ کر وطن کی فضا سے جب بھی احباب کی یاد آئی

    دور رہ کر وطن کی فضا سے جب بھی احباب کی یاد آئی ہجر میں رہ گیا دل تڑپ کر آنکھ فرط الم سے بھر آئی گلشن حسرت و آرزو کی جب کلی کوئی کھلنے پہ آئی باد صرصر نے مارے طمانچے اس خطا پر کہ کیوں مسکرائی اہل زر سے یہ انس و محبت بے زروں سے یہ انداز نفرت کھل گیا آپ کا زہد و تقویٰ دیکھ لی آپ کی ...

    مزید پڑھیے

    وہ نام زہر کا رکھ دیں دوا تو کیا ہوگا

    وہ نام زہر کا رکھ دیں دوا تو کیا ہوگا کہیں جو خون کو رنگ حنا تو کیا ہوگا چمن کی سمت چلا تو ہے کاروان بہار جو راہزن ہی ہوئے رہنما تو کیا ہوگا حریف سیل حوادث تو ہے سفینۂ قوم جو نذر موج ہوا نا خدا تو کیا ہوگا ترس رہا ہے زمانہ سکون دل کے لئے سکون دل نہ میسر ہوا تو کیا ہوگا چمن کے ...

    مزید پڑھیے

    وہ نماز عشق ہی کیا جو سلام تک نہ پہنچے

    وہ نماز عشق ہی کیا جو سلام تک نہ پہنچے کہ قعود سے جو گزرے تو قیام تک نہ پہنچے وہ حیات کیا کہ جس میں نہ خوشی کے ساتھ غم ہو وہ سحر بھی کیا سحر ہے کہ جو شام تک نہ پہنچے ترے مے کدے کا ساقی یہ چلن بھی کیا چلن ہے کہ جو ہاتھ تشنہ کاموں کے بھی جام تک نہ پہنچے مری نا مرادیوں کی یہی انتہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    اک انقلاب مسلسل ہے زندگی میری

    اک انقلاب مسلسل ہے زندگی میری اک اضطراب مکمل ہے خامشی میری یہ کس مقام پہ پہنچی خود آگہی میری کہ آج آپ نے محسوس کی کمی میری مزاج حسن کو بھائی نہ بندگی میری نیاز عشق میں شامل رہی خودی میری محیط کون و مکاں ہے جمال پردہ نشیں وہ سامنے تھے جہاں تک نظر گئی میری حدیث دل بہ زبان نظر ...

    مزید پڑھیے

    جنوں میں مشق تصور بڑھا رہا ہوں میں

    جنوں میں مشق تصور بڑھا رہا ہوں میں وہ پاس آئے تو اب دور جا رہا ہوں میں فضائے گلشن ہستی پہ چھا رہا ہوں میں ترے کرم کا کرشمہ دکھا رہا ہوں میں وہ چار تنکے جنہیں برق بھی جلا نہ سکے انہیں سے اپنا نشیمن بنا رہا ہوں میں ہے آدمی کا مقدر خود اس کے ہاتھوں میں کچھ اس فریب میں بھی مبتلا رہا ...

    مزید پڑھیے

    عجب بے کیف ہے راتوں کی تنہائی کئی دن سے

    عجب بے کیف ہے راتوں کی تنہائی کئی دن سے کسی کی یاد بھی دل میں نہیں آئی کئی دن سے بہت مغموم ہے شان مسیحائی کئی دن سے بڑھی جاتی ہے زخم دل کی گہرائی کئی دن سے کلی نے بھی اڑایا تھا مذاق گریۂ شبنم پڑی ہے خاک پر خشک اور مرجھائی کئی دن سے چرا لائی ہے شاید نکہت گل صحن گلشن سے نسیم صبح ...

    مزید پڑھیے

    فیضان محبت نہ ہوا عام ابھی تک

    فیضان محبت نہ ہوا عام ابھی تک تاریک ہے انسان کا انجام ابھی تک میخانے میں ہے تشنہ لبی عام ابھی تک گردش میں محبت کے نہیں جام ابھی تک چھینا ہے سکوں دہر کا ارباب خرد نے ہیں اہل جنوں مورد الزام ابھی تک واماندۂ منزل ہے جو اے راہ رو شوق شاید ہے ترا ذوق طلب خام ابھی تک اس دور سکوں سوز ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ فطرت میں در حقیقت وہ زندگی زندگی نہیں ہے

    نگاہ فطرت میں در حقیقت وہ زندگی زندگی نہیں ہے جو دوسروں کے نہ کام آئے وہ آدمی آدمی نہیں ہے کسی کے جلووں کا عکس رنگیں کبھی ہے دل میں کبھی نہیں ہے میں کس طرح مان لوں کہ ذوق یقیں کی تجھ میں کمی نہیں ہے پھر اور کیا ہے اگر زوال خودی و خود آگہی نہیں ہے دل و نظر کو یہ کیا ہوا ہے کہیں بھی ...

    مزید پڑھیے