Mubarak Haider

مبارک حیدر

مبارک حیدر کی نظم

    نظم

    آفتاب آفت ہے آب کے لیے لیکن میرے دل کے چشموں میں آفتاب کھلتے ہیں میرے دل کے چشمے جو آسماں کے پیڑوں میں سایہ سایہ بہتے ہیں دھوپ ان کے پانی میں خواب کی طرح عریاں پربتوں کی جھولی میں بیٹھ کر نہاتی ہے اپنے پھول سے پاؤں پانیوں میں دھوتی ہے عرش کی نگاہوں میں یہ مگر خرابی ہے آسمان والوں ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    میں کتنے برسوں سے روز اپنے انا کی ایک پرت چھیلتا ہوں لہو لہو ان ہزار پرتوں کی تہہ میں پتھر ہوں جانتا ہوں یہ کہکشائیں یہ کائناتیں یہ روشنی کے سیاہ رستے گزر کے تیری تلاش میں ہیں کہ ہو نہ ہو تم وہاں کہیں میری منتظر ہو مجھے یقیں ہے کہ تم میری بات سن رہی ہو مگر نہیں ہو، کہ یہ جو تم ہو، ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    خداوندا یہ کیسا جبر ہے میں نے تری رسی کو پکڑا ہی نہیں لیکن مجھے رسی نے جکڑا ہے مجھے کہتے ہیں تم آزاد ہو، اپنے لیے چن لو مگر بحر فنا کو جانے والے مجھ کو رکنے ہی نہیں دیتے میں رکنا چاہتا ہوں اس حسیں کے آن ملنے تک کہ جو رستے میں پیچھے رہ گئی تھی بیابان نمو کی بے کراں تاریکیوں میں ان ...

    مزید پڑھیے