Monika Sharma Sarthi

مونیکا شرما سارتھی

مونیکا شرما سارتھی کی غزل

    پیار کے آغوش میں ہم کو ٹھہرنا ہی نہیں

    پیار کے آغوش میں ہم کو ٹھہرنا ہی نہیں آرزو کی اس گلی سے اب گزرنا ہی نہیں چیخیں میری سن کے بھی جب شب نے نظریں پھیر لیں خوف کم اس تیرگی کا اب تو کرنا ہی نہیں یہ سفر مشکل سہی پر ہم تو چلتے جائیں گے دے کوئی آواز لیکن اب ٹھہرنا ہی نہیں یہ غضب کی رونقیں کس کام کی اپنے لئے صلح اب خوشیوں ...

    مزید پڑھیے

    غموں کی اوڑھنی اوڑھے کھڑے ہیں زندگانی میں

    غموں کی اوڑھنی اوڑھے کھڑے ہیں زندگانی میں نکالے پیڑا کا گھونگھٹ سدا اپنی کہانی میں سکوں کترا نہیں برسا سدا تڑپے سدا ترسے اسی بد حال منظر نے لگا دی آگ پانی میں مرے کندھے مرے یاروں مرے صدموں نے توڑے ہیں اٹھائے پھر رہے تھے بوجھ غم کا شادمانی میں مسافر ہر کوئی ہوتا ہے اس راہ محبت ...

    مزید پڑھیے

    شام کا غم بھی جفاکار اداسی میری

    شام کا غم بھی جفاکار اداسی میری زخم دے جاتی ہے ہر بار اداسی میری جب بھی ہونٹوں کو ہنسایا یہی پوچھا خود سے کیوں ہے خوشیوں پہ کڑا بار اداسی میری میرے سائے سے لپٹنے کو ترستی رہتی بن گئی میری طلب گار اداسی میری گہرے تنہائی کے عالم میں سلا جاتی ہے کتنی بن جاتی ہے خوں خوار اداسی ...

    مزید پڑھیے

    وقت مجبور اپنی عادت سے

    وقت مجبور اپنی عادت سے بدلے لمحوں کو اپنی چاہت سے کب رہا شوق جیتنے کا ہمیں ہارتے ہی رہے ہیں قسمت سے اس کی ہی بے رخی کا ہے انجام ہم ہوئے دور اس کی الفت سے درد غم رنج آہیں خاموشی اور پایا ہے کیا محبت سے اس نے کر لی ہی خود کشی آخر تھا پریشاں وہ اپنی غربت سے دو نگاہوں سے داؤں کھیلا ...

    مزید پڑھیے

    یہ ارمان جب تک مچلتے رہیں گے

    یہ ارمان جب تک مچلتے رہیں گے ہزاروں ہی غم دل میں پلتے رہیں گے صدا ہاتھ سچائی کا ہم نے تھاما خبر کیا تھی بازو ہی گلتے رہیں گے سلامت رہیں گی یہ سانسیں جہاں تک نگاہوں میں ہم سب کی کھلتے رہیں گے سیاست کی بازی وطن نوچ لے گی کفن اف شہیدوں کے ڈھلتے رہیں گے بہت تلخ لہجہ ہے دنیا کا ...

    مزید پڑھیے