Moid Rashidi

معید رشیدی

ممتاز نسل کے نمود پذیر شاعر اور نقاد۔ ساہتیہ اکادمی ’یوا پرسکار‘ یافتہ

Prominent upcoming poet and critic. Recipient of Sahitya Academy's Yuva Puraskar.

معید رشیدی کی غزل

    آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا

    آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا میں خود کو دیکھتا رہا میں خود کو سوچتا رہا خود کو پکارتا رہا، کوئی خبر نہیں ملی کس کی خبر نہیں ملی، کس کو پکارتا رہا اس کی تلاش ہی نہ تھی، اپنی تلاش بھی نہ تھی کھونے کا خوف کچھ نہ تھا، پھر کیسا فاصلہ رہا کچھ مسئلے تو گھر گئے، کچھ مسئلے ...

    مزید پڑھیے

    میں کوئی دشت میں دیوار نہیں کر سکتا

    میں کوئی دشت میں دیوار نہیں کر سکتا شہر اب مجھ پہ کبھی وار نہیں کر سکتا میں نہیں چاہتا ہر دم تری یادوں کا ہجوم اپنی تنہائی میں دربار نہیں کر سکتا تیرا غم ہو کہ غم دہر اٹھانے میں ہے کیا کام کیا ہے جو یہ بیمار نہیں کر سکتا اک عمارت مرے اندر ہوئی مسمار تو اب کیا مجھے وقت سر دار ...

    مزید پڑھیے

    دل یہ کہتا ہے ہار کر دیکھیں

    دل یہ کہتا ہے ہار کر دیکھیں خود کو تجھ میں اتار کر دیکھیں کوئی آتا ہے یا نہیں آتا آج خود کو پکار کر دیکھیں زندگی کے بغیر بھی ہم لوگ ایک لمحہ گزار کر دیکھیں حوصلہ چاہئے بکھرنے میں آؤ خود کو غبار کر دیکھیں تیرگی روح تک چلی آئی روشنی کا حصار کر دیکھیں غیب سے آئے گی ہوا چل کر موسم ...

    مزید پڑھیے

    آج کچھ صورت افلاک جدا لگتی ہے

    آج کچھ صورت افلاک جدا لگتی ہے دیکھتا ہوں تری جانب تو گھٹا لگتی ہے زندگی ہم ترے کوچے میں چلے آئے تو ہیں تیرے کوچے کی ہوا ہم سے خفا لگتی ہے شب کی آہٹ سے یہاں چونک گیا ہے کوئی یہ بھی شاید مرے دل ہی کی خطا لگتی ہے میں زمینوں کی لکیروں میں الجھتا کیسے آسمانوں سے مری گردش پا لگتی ...

    مزید پڑھیے

    فصیل شہر سے کیوں سب کے سب نکل آئے

    فصیل شہر سے کیوں سب کے سب نکل آئے ہمیں خبر نہ ہوئی جانے کب نکل آئے قدم قدم پہ یہاں قہقہے بچھے ہوئے ہیں یہ کیسے شہر میں ہم بے سبب نکل آئے وہ روشنی میں نہایا ہوا تصور تھا اندھیرا بڑھتا گیا دست شب نکل آئے اب اس سے پہلے کہ رسوائی اپنے گھر آتی تمہارے شہر سے ہم با ادب نکل آئے پھر ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2