Moid Rashidi

معید رشیدی

ممتاز نسل کے نمود پذیر شاعر اور نقاد۔ ساہتیہ اکادمی ’یوا پرسکار‘ یافتہ

Prominent upcoming poet and critic. Recipient of Sahitya Academy's Yuva Puraskar.

معید رشیدی کی غزل

    آثار جنوں بے سروساماں نہیں ہوتے

    آثار جنوں بے سروساماں نہیں ہوتے ہم شہر تحیر میں پریشاں نہیں ہوتے رستے میں طلسمات بچھی جاتی ہیں ہر دم ہم خوئے سفر صورت حیراں نہیں ہوتے ماضی کی طنابوں سے لگے درد کے خیمے کیا جانیے کیوں دیدۂ امکاں نہیں ہوتے خوابوں کی حویلی سے رواں شور مسلسل آواز جرس کے لیے زنداں نہیں ہوتے ہم ...

    مزید پڑھیے

    اپنے اندر کے اندھیرے کو جلایا میں نے

    اپنے اندر کے اندھیرے کو جلایا میں نے کون کہتا ہے کہ طوفان اٹھایا میں نے تو مجھے زہر پلاتی ہے یہ تیرا شیوہ اے مری رات تجھے خون پلایا میں نے اس خرابے کے مقدر میں فقط سناٹا اپنی تنہائی کو اک جسم بنایا میں نے کوئی ٹکرائے تو اس ہجر زدہ موسم میں رات جنگل میں بہت خود کو جلایا میں نے

    مزید پڑھیے

    وہ جب بھی پکارے گا یہاں آن رہیں گے

    وہ جب بھی پکارے گا یہاں آن رہیں گے ہم خاک نشیں بے سر و سامان رہیں گے ہنگام جہاں تجھ میں پریشان رہیں گے یا دشت طلسمات میں حیران رہیں گے سایہ بھی یہاں دور ذرا ہم سے چلے گا یہ شہر ہی ایسا ہے کہ انجان رہیں گے اے عقل نہیں آئیں گے باتوں میں تری ہم نادان تھے نادان ہیں نادان رہیں گے سن ...

    مزید پڑھیے

    مکاں سے دور کہیں لا مکاں میں بیٹھ گئی

    مکاں سے دور کہیں لا مکاں میں بیٹھ گئی بدن کی آگ طلسمات جاں میں بیٹھ گئی سلگتی دھوپ میں جل کر فقیر شب تری خاک کیوں خانقاہ شب بے کراں میں بیٹھ گئی کیوں آج دل کے حرم میں نماز غم نہ ہوئی کیوں ایک چپ سی صدائے اذاں میں بیٹھ گئی ہماری صبح ہجوم بلا کی نذر ہوئی ہماری شام بھی دشت گماں میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ ہجرتوں کے تماشے، یہ قرض رشتوں کے (ردیف .. ن)

    یہ ہجرتوں کے تماشے، یہ قرض رشتوں کے میں خود کو جوڑتے رہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں مری انا مجھے ہر بار روک لیتی ہے بس ایک بات ہے کہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں زمیں کا کرب، لہو، درد، گردش پیہم اک اژدحام ہے، سہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں میں اک ندی ہوں مری ذات اک سمندر ہے میں اپنی خاک پہ بہنے میں ٹوٹ ...

    مزید پڑھیے

    درون ذات ہجوم عذاب ٹھہرا ہے

    درون ذات ہجوم عذاب ٹھہرا ہے کہاں یہ سلسلۂ اضطراب ٹھہرا ہے یہیں افق سے زمینیں سوال کرتی ہیں کہاں خلاؤں میں چھپ کر جواب ٹھہرا ہے بدن زمین میں آنکھیں اگائی ہیں ہم نے بدن فلک پہ کوئی ماہتاب ٹھہرا ہے اسی جواب کے رستے سوال آتے ہیں اسی سوال میں سارا جواب ٹھہرا ہے سیہ لباس میں ہم شب ...

    مزید پڑھیے

    لگتا ہے تباہی مری قسمت سے لگی ہے

    لگتا ہے تباہی مری قسمت سے لگی ہے یہ کون سی آندھی مرے اندر سے اٹھی ہے اس بار اجالوں نے مجھے گھیر لیا تھا اس بار مری رات مرے ساتھ چلی ہے کیسے کوئی بستی مرے اندر اتر آئے اس بار تو تنہائی مری جاگ رہی ہے کیسے کوئی دریا مرے سینے سے گزر جائے رستے میں انا کی مری دیوار کھڑی ہے ویران ...

    مزید پڑھیے

    عشق میں لذت آزار نکل آتی ہے

    عشق میں لذت آزار نکل آتی ہے اس بہانے سے شب تار نکل آتی ہے ہم ترے شہر سے ملتے ہیں گزر جاتے ہیں تجھ سے ملنے میں تو تلوار نکل آتی ہے خواب میں توڑتا رہتا ہوں انا کی زنجیر آنکھ کھلتی ہے تو دیوار نکل آتی ہے جب بھی آتا ہے کوئی رنگ زمانے جیسا کچھ نہ کچھ صورت انکار نکل آتی ہے جب بھی کرتا ...

    مزید پڑھیے

    یہ معجزہ ہے کہ میں رات کاٹ دیتا ہوں

    یہ معجزہ ہے کہ میں رات کاٹ دیتا ہوں نہ جانے کیسے طلسمات کاٹ دیتا ہوں وہ چاہتے ہیں کہ ہر بات مان لی جائے اور ایک میں ہوں کہ ہر بات کاٹ دیتا ہوں نمی سی تیرتی رہتی ہے میری آنکھوں میں بہ اختیار میں برسات کاٹ دیتا ہوں ترا خیال ہی اب میرا اسم اعظم ہے اسی سے سارے خیالات کاٹ دیتا ...

    مزید پڑھیے

    ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے

    ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے خانۂ دل میں نہاں جیسے خدا رہتا ہے میرے اندر ہی کوئی جنگ چھڑی ہے شاید میرے اندر ہی کوئی دشت بلا رہتا ہے جب بھی نزدیک سے محسوس کیا ہے خود کو میں نے دیکھا ہے کوئی مجھ سے خفا رہتا ہے ہم تو آباد جزیروں سے گزر جاتے ہیں اور پھر دور تلک ایک خلا رہتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2