Mohan Seerat Ajmeri

موہن سیرت اجمیری

موہن سیرت اجمیری کی غزل

    دل تو پکا تھا مگر دل کی دلیلیں کچی

    دل تو پکا تھا مگر دل کی دلیلیں کچی لے گریں پختہ عمارت کو فصیلیں کچی آ گئے رنگ کے دھوکے میں زمانے والے سرخ پھولوں پہ جھپٹتی رہیں چیلیں کچی آ گئی بات سر بزم زباں پر دل کی تو نے ہونٹوں پہ جڑیں ضبط کی کیلیں کچی کچے انگور کی اک بیل بدن ہے اس کا اور آنکھیں ہیں مئے ناب کی جھیلیں کچی لے ...

    مزید پڑھیے

    زخم اب دل کے چمک دیتے ہیں ہیروں کی طرح

    زخم اب دل کے چمک دیتے ہیں ہیروں کی طرح ہم ترے شہر میں رہتے ہیں امیروں کی طرح کر دیا قید ہمیں وقت کی دیواروں نے ورنہ ہم لوگ بھی تھے چھوٹتے تیروں کی طرح شام کو ڈوبتے سورج کی چمکتی سرخی دور تک پھیل گئی خونی جزیروں کی طرح جب بھی آتی ہے کوئی فتنہ جگا دیتی ہے تیری مسکان ترے لب پہ ...

    مزید پڑھیے

    الفاظ ہیں یہ سارے اسی کی زبان کے

    الفاظ ہیں یہ سارے اسی کی زبان کے پہچانتا ہوں تیر میں اس کی کمان کے ہر بوند پہ گمان تھا موتی کی آب کا آنکھوں میں اشک آئے بڑی آن بان کے ہر ہر ادا و ناز کی قیمت تھے جان و دل سودے بہت ہی مہنگے تھے اس کی دکان کے اس کے عجب سوال تھے میرے عجب جواب پرچے سبھی خراب ہوئے امتحان کے غم سے ...

    مزید پڑھیے