Meraj Faizabadi

معراج فیض آبادی

معراج فیض آبادی کی غزل

    زندگی دی ہے تو جینے کا ہنر بھی دینا

    زندگی دی ہے تو جینے کا ہنر بھی دینا پاؤں بخشیں ہیں تو توفیق سفر بھی دینا گفتگو تو نے سکھائی ہے کہ میں گونگا تھا اب میں بولوں گا تو باتوں میں اثر بھی دینا میں تو اس خانہ بدوشی میں بھی خوش ہوں لیکن اگلی نسلیں تو نہ بھٹکیں انہیں گھر بھی دینا ظلم اور صبر کا یہ کھیل مکمل ہو جائے اس ...

    مزید پڑھیے

    اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے

    اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے کیا یہ موسم ترے قانون کے پابند نہیں موسم گل میں یہ دستور خزاں کس کا ہے راکھ کے شہر میں ایک ایک سے میں پوچھتا ہوں یہ جو محفوظ ہے اب تک یہ مکاں کس کا ہے میرے ماتھے پہ تو یہ داغ نہیں تھا پہلے آج آئینے میں ابھرا ...

    مزید پڑھیے

    جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے

    جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے دھوپ میں برف کی مانند پگھلتے رہیے یہ تبسم تو ہے چہروں کی سجاوٹ کے لیے ورنہ احساس وہ دوزخ ہے کہ جلتے رہیے اب تھکن پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہے راہ کا خوف یہ کہتا ہے کہ چلتے رہیے زندگی بھیک بھی دیتی ہے تو قیمت لے کر روز فریاد کا انداز بدلتے رہیے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2