Meraj Faizabadi

معراج فیض آبادی

معراج فیض آبادی کی غزل

    بھیڑ میں کوئی شناسا بھی نہیں چھوڑتی ہے

    بھیڑ میں کوئی شناسا بھی نہیں چھوڑتی ہے زندگی مجھ کو اکیلا بھی نہیں چھوڑتی ہے عافیت کا کوئی گوشہ بھی نہیں چھوڑتی ہے اور دنیا مرا رستہ بھی نہیں چھوڑتی ہے مجھ کو رسوا بھی بہت کرتی ہے شہرت کی ہوس اور شہرت مرا پیچھا بھی نہیں چھوڑتی ہے ہم کو دو گھونٹ کی خیرات ہی دے دو ورنہ پیاس پاگل ...

    مزید پڑھیے

    مرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا

    مرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا بہت طویل تھا یہ دن مگر گزر تو گیا لگا کے داؤ پہ سانسوں کی آخری پونجی وہ مطمئن ہے چلو ہارنے کا ڈر تو گیا کسی گناہ کی پرچھائیاں تھیں چہرے پر سمجھ نہ پایا مگر آئنے سے ڈر تو گیا یہ اور بات کہ کاندھوں پہ لے گئے ہیں اسے کسی بہانے سے دیوانہ آج گھر ...

    مزید پڑھیے

    بھیگتی آنکھوں کے منظر نہیں دیکھے جاتے

    بھیگتی آنکھوں کے منظر نہیں دیکھے جاتے ہم سے اب اتنے سمندر نہیں دیکھے جاتے اس سے ملنا ہے تو پھر سادہ مزاجی سے ملو آئینے بھیس بدل کر نہیں دیکھے جاتے وضع داری تو بزرگوں کی امانت ہے مگر اب یہ بکتے ہوئے زیور نہیں دیکھے جاتے زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا جنگ لازم ہو تو لشکر ...

    مزید پڑھیے

    چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے

    چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے مسرتوں میں بھی جاگے گناہ کااحساس مرے وجود کو اتنی بھی پارسائی نہ دے بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں خدا کسی کو بھی توفیق آشنائی نہ دے میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں مرے دیوں کو مگر روشنی پرائی ...

    مزید پڑھیے

    ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم

    ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی ایک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم کاہے کا ترک وطن کاہے کی ہجرت بابا اسی دھرتی کی اسی دیش کی اولاد ہیں ہم ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک در و دیوار اگر تم ہو تو ...

    مزید پڑھیے

    گونگے لفظوں کا یہ بے سمت سفر میرا ہے

    گونگے لفظوں کا یہ بے سمت سفر میرا ہے گفتگو اس کی ہے لہجے میں اثر میرا ہے میں نے کھوئے ہیں یہاں اپنے سنہرے شب و روز در و دیوار کسی کے ہوں یہ گھر میرا ہے میرا اسلاف سے رشتہ تو نہ توڑ اے دنیا سب محل تیرے ہیں لیکن یہ کھنڈر میرا ہے آتی جاتی ہوئی فصلوں کا محافظ ہوں میں پھل تو سب اس کی ...

    مزید پڑھیے

    ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے

    ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے تیری یادوں کو بھی رسوا نہیں ہونے دیتے کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کے لیے ہم کسی گھر میں اجالا نہیں ہونے دیتے آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے گھر میں ہمسائے کے فاقہ ...

    مزید پڑھیے

    بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون

    بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون لوگ تیرے جرم دیکھیں گے سبب دیکھے گا کون ہاتھ میں سونے کا کاسہ لے کے آئے ہیں فقیر اس نمائش میں ترا دست طلب دیکھے گا کون لا اٹھا تیشہ چٹانوں سے کوئی چشمہ نکال سب یہاں پیاسے ہیں تیرے خشک لب دیکھے گا کون دوستوں کی بے غرض ہمدردیاں تھک ...

    مزید پڑھیے

    تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں

    تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں امیر بیٹے دعا کی قیمت لگا رہے ہیں میں جن کو انگلی پکڑ کے چلنا سکھا چکا ہوں وہ آج میرے عصا کی قیمت لگا رہے ہیں مری ضرورت نے فن کو نیلام کر دیا ہے تو لوگ میری انا کی قیمت لگا رہے ہیں میں آندھیوں سے مصالحت کیسے کر سکوں گا چراغ میرے ہوا کی قیمت لگا ...

    مزید پڑھیے

    اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے

    اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے میری تھکن کو گرد سفر کا لباس دے پروردگار تو نے سمندر تو دے دیے اب میرے خشک ہونٹوں کو صحرا کی پیاس دے فرصت کہاں کہ ذہن مسائل سے لڑ سکیں اس نسل کو کتاب نہ دے اقتباس دے آنسو نہ پی سکیں گے یہ تنہائیوں کا زہر بخشا ہے غم مجھے تو کوئی غم شناس دے لفظوں میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2