Khan Rizwan

خان رضوان

نئی نسل کے شاعر

Upcoming Poet

خان رضوان کی غزل

    اسیر درد ہو کر جی رہا ہوں

    اسیر درد ہو کر جی رہا ہوں کہ اب آنسو نہیں خوں پی رہا ہوں تری فرقت ستائے گی مجھے کیا میں خود چاک گریباں سی رہا ہوں مجھے کیوں آج ٹھکراتی ہے دنیا کبھی اس کی ضرورت بھی رہا ہوں مجھے فرصت کہاں ہے دشت غم سے ہمیشہ آبلہ پا ہی رہا ہوں

    مزید پڑھیے

    حصار غم سے جو نکلے بھی تو کدھر آئے

    حصار غم سے جو نکلے بھی تو کدھر آئے بہت ملال ہوا لوٹ کے جو گھر آئے دکھائی کچھ نہ دے لیکن مری نگاہوں کو ترے جمال کا منظر فقط نظر آئے تمہارے در سے گزر جاؤں اور خبر بھی نہ ہو مرے سفر میں اک ایسی بھی رہ گزر آئے تمام عمر میں زد میں رہا ہوں راتوں کی مرے خدا مرے حصے کی اب سحر آئے

    مزید پڑھیے

    وحشت غم سے رات بھر یارو

    وحشت غم سے رات بھر یارو رویا میں پھر ہوئی سحر یارو جانا چاہیں بھی تو کدھر جائیں کھو گئے سارے رہ گزر یارو ذہن و دل سے نکال کر اس کو کر دیا خود کو معتبر یارو عمر بھر گرد راہ کی صورت میں جو کرتا رہا سفر یارو آئی خاک وطن کی یاد مگر لوٹ کر پھر گئے نہ گھر یارو ہے تمنا نئی فضا کی ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کا سفر طے تو کرتے رہے

    زندگی کا سفر طے تو کرتے رہے رات کٹتی رہی دن گزرتے رہے اک تصور ترا ذہن میں ہم لیے شاہ راہ جہاں سے گزرتے رہے اپنی آوارگی کا پتا ہے کسے زخم کھاتے رہے اور سنورتے رہے شام آئی نہا کر ترے حسن میں چاند تارے فلک پر نکھرتے رہے اپنا مطلوب و مقصود اب کچھ نہیں خواب بنتے رہے اور بکھرتے رہے

    مزید پڑھیے

    کوئی دعا ہے یا پھر بد دعا ہے میرے لیے

    کوئی دعا ہے یا پھر بد دعا ہے میرے لیے یہ کون پچھلے پہر رو رہا ہے میرے لیے میں معترف ہوں بہرحال اس کی چاہت کا جو ترک دنیا کیے جا رہا ہے میرے لیے پناہ اب کسی بھی جاں میں لے لیا جائے کہ آسماں نہ زمیں کچھ بچا ہے میرے لیے میں چاہ کے بھی جدا اس سے ہو نہیں سکتا عجیب بے بسی کی انتہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی آئی مجھ کو راس ابھی

    زندگی آئی مجھ کو راس ابھی خود کو دیکھا ہے کچھ اداس ابھی لوگ جو دور جا چکے ہیں بہت ان کی یادیں ہیں میرے پاس ابھی ڈھونڈھتی ہے مری نظر ان کو وہ جو بیٹھے تھے میرے پاس ابھی اے خدا کر دے شب کو اور سیاہ ہے غریبوں کا یہ لباس ابھی وہ نہ آئے گا جانتا ہوں مگر دل میں باقی ہے تھوڑی آس ...

    مزید پڑھیے

    نیند کی سوداگری کرتا ہوں میں

    نیند کی سوداگری کرتا ہوں میں بس یہی اک چاکری کرتا ہوں میں لوگ جو کرتے نہیں ہیں عمر بھر کام بس وہ دیگری کرتا ہوں میں تاکتا رہتا ہوں میں تاروں کو یوں جیسے آوارہ گری کرتا ہوں میں کام میرا کچھ نہیں ہے بس مگر ہر نفس صورت گری کرتا ہوں میں کوئی اب کیسے مقابل ہو مرا رہبری ہی رہبری ...

    مزید پڑھیے

    ٹھہرنا بھول گئی ہیں لہو سے تر آنکھیں

    ٹھہرنا بھول گئی ہیں لہو سے تر آنکھیں بھٹکتی رہتی ہیں دن رات در بہ در آنکھیں وجود میرا کہیں کھو نہ جائے بن تیرے رہیں گی یوں ہی ترے ساتھ عمر بھر آنکھیں تم اپنی آنکھوں کو نظارۂ جہاں بخشو مری تو گھومتی رہتی ہیں ریت پر آنکھیں طلسم خانۂ حیرت ہے ایک پتلی میں دکھاتی ہیں مجھے کیا کیا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی مجھے کبھی خود کو بھلا کے دیکھتا ہے

    کبھی مجھے کبھی خود کو بھلا کے دیکھتا ہے وہ اپنے آپ کو بھی آزما کے دیکھتا ہے تعلقات میں اپنی ہے مصلحت سب کی کبھی وہ دور کبھی پاس آ کے دیکھتا ہے میں جا رہا ہوں بہت دور شہر سے اپنے وہ سن کے بات مری مسکرا کے دیکھتا ہے اسی کا حکم ہے تاریک گھر کو رکھنے کا مگر چراغ دل و جاں جلا کے دیکھتا ...

    مزید پڑھیے