حدوں سے بڑھ کے مکمل حدود سونپتا ہوں
حدوں سے بڑھ کے مکمل حدود سونپتا ہوں تری تھکن کو میں اپنا وجود سونپتا ہوں رگوں میں خون کی حدت سے خشک سالی ہے میں اس روانی کو رسم جمود سونپتا ہوں وہ مجھ سے دور تو میں اس سے دور ہونے لگا میں برگزیدہ اذیت کو سود سونپتا ہوں میں سونپ دینے کی منزل تلک نہیں پہنچا مگر کسی کو قیام و سجود ...