Kausar Siwani

کوثر سیوانی

  • 1933

کوثر سیوانی کی غزل

    دب گئی کیوں مری آواز کہو تو کہہ دوں

    دب گئی کیوں مری آواز کہو تو کہہ دوں اس بھری بزم میں وہ راز کہو تو کہہ دوں میرے نغموں کو سر بزم ترسنے والو بے صدا کیوں ہے مرا ساز کہو تو کہہ دوں اپنے محسن کا بھی احسان بھلانے والے کس نے بخشا تمہیں اعزاز کہو تو کہہ دوں کیسے غیروں کو ملا گوشۂ پنہاں کا سراغ کون نگراں تھا دغاباز کہو ...

    مزید پڑھیے

    تنور وقت کی حدت سے ڈر گئے ہم بھی

    تنور وقت کی حدت سے ڈر گئے ہم بھی مگر تپش میں تپے تو نکھر گئے ہم بھی جہاں پہنچ کے مسافر کے رخ بدلتے ہیں رہ حیات کے اس موڑ پر گئے ہم بھی جلا دیا تھا سفینہ اتر کے ساحل پر جنون فتح میں کیا کیا نہ کر گئے ہم بھی جدید رنگ سے مدھم ہوا نہ رنگ کہن قدیم رنگ میں وہ رنگ بھر گئے ہم بھی قدم قدم ...

    مزید پڑھیے

    موت کو زیست کی منزل کا پتا کہتے ہیں

    موت کو زیست کی منزل کا پتا کہتے ہیں رہرو عشق فنا کو بھی بقا کہتے ہیں اہل وحشت کا نہ کچھ پوچھیے کیا کہتے ہیں وہ تو اپنا بھی کہا ان کا کہا کہتے ہیں ان کے کردار کی عظمت کو بھلا کیا کہیے اتنے اچھے ہیں کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں قید گفتار بھی ہے بندش رفتار بھی ہے ایسے ماحول کو زندان بلا ...

    مزید پڑھیے

    وہ تجھ کو توڑ کے مثل حباب کر دے گا

    وہ تجھ کو توڑ کے مثل حباب کر دے گا ترا غرور تجھے آب آب کر دے گا ٹھہر سکے گی کہاں شبنمی گہر کی چمک بس اک نظر میں فنا آفتاب کر دے گا کبھی تو پھیلے گی باغ حیات میں خوشبو گلاب کھل کے فضا کو گلاب کر دے گا رخ فریب پہ ٹھہرے گی کیا نقاب فریب ترا فریب تجھے بے نقاب کر دے گا نہ راس آئے گی ...

    مزید پڑھیے

    چھائی ہے قیامت کی گھٹا دیکھیے کیا ہو

    چھائی ہے قیامت کی گھٹا دیکھیے کیا ہو برسے تو برسنے کی ادا دیکھیے کیا ہو کھل کھل کے سبھی پھول تو مسرور ہیں لیکن مسموم ہے گلشن کی فضا دیکھیے کیا ہو پھر جوش میں ہیں آج مرے مد مقابل ہے میری وفا ان کی جفا دیکھیے کیا ہو سر جوڑ کے بیٹھے ہیں سبھی صلح کی خاطر ہیں ان کے خیالات جدا دیکھیے ...

    مزید پڑھیے

    ساحل پہ کیا ہے بحر کے اندر تلاش کر

    ساحل پہ کیا ہے بحر کے اندر تلاش کر گہرائیوں میں ڈوب کے گوہر تلاش کر جس میں حیات بخش نظارا دکھائی دے گلزار زندگی میں وہ منظر تلاش کر دیتے ہیں اب صدا تجھے مریخ و ماہتاب کیا کیا ہیں ان کی گود میں جا کر تلاش کر مٹ جائے جس کے نور سے ظلمت حیات کی ایسا کوئی چراغ منور تلاش کر طوفان بحر ...

    مزید پڑھیے

    بھٹک جاتے ہیں رہبر رہبری میں

    بھٹک جاتے ہیں رہبر رہبری میں کچھ ایسی منزلیں ہیں زندگی میں پتا کیسے ملے اس لاپتہ کا جو گم رہتا ہو اپنے آپ ہی میں خبردار اے مری وحشت خبردار کوئی لغزش نہ ہو دیوانگی میں نہ یوں ہی بے خودی میں گم ہے کوئی نہاں راز خودی ہے بے خودی میں فرشتے بھی سمجھنے سے ہیں قاصر بشر کیا ہے لباس ...

    مزید پڑھیے

    کھل گیا عقدۂ ہستی تو کفن مانگ لیا

    کھل گیا عقدۂ ہستی تو کفن مانگ لیا زیست نے موت سے جینے کا چلن مانگ لیا پھوٹ کر سینۂ کہسار سے بہنے کے لیے چشمۂ آب نے دامان دمن مانگ لیا کیا تعجب ہے اگر مانگ لی چہرے سے نقاب دور حاضر نے تو پیراہن تن مانگ لیا بن گیا حلقۂ ظلمت جو پڑا عکس زمیں چاند نے خود تو نہیں بڑھ کے گہن مانگ ...

    مزید پڑھیے

    سلا کر تیز دھاروں کو کنارو تم نہ سو جانا

    سلا کر تیز دھاروں کو کنارو تم نہ سو جانا روانی زندگانی ہے تو دھارو تم نہ سو جانا مجھے تم کو سنانی ہے مکمل داستاں اپنی ادھوری داستاں سن کر ستارو تم نہ سو جانا تمہارے دائرے میں زندگی محفوظ رہتی ہے نظام بزم ہستی کے حصارو تم نہ سو جانا تمہیں سے جاگتا ہے دل میں احساس روا داری قیام ...

    مزید پڑھیے

    طوفان میں بھنور میں نہ دھاروں کی گود میں

    طوفان میں بھنور میں نہ دھاروں کی گود میں ڈوبی ہے میری ناؤ کناروں کی گود میں کیا جانے آج کیوں ہیں ستارے دھواں دھواں یہ کیسی تیرگی ہے ستاروں کی گود میں بد نام گلستاں میں خزاں ہی تو ہے مگر کیا کیا نہ گل کھلے ہیں بہاروں کی گود میں موسم تھا خوش گوار تو منظر تھا خوش گوار اب وہ کشش ...

    مزید پڑھیے