Kausar Jayasi

کوثر جائسی

کوثر جائسی کی غزل

    ہم ترے غم کو جو پرکار بنا کر اٹھے

    ہم ترے غم کو جو پرکار بنا کر اٹھے نفس گرم کو تلوار بنا کر اٹھے آؤ ہم ہنستے اٹھیں بزم دل آزاراں سے کون احساس کو بیمار بنا کر اٹھے رات بھر تجربۂ خون جگر ہم نے کیا صبح دم دشت کو گل زار بنا کر اٹھے محفل راز میں ہم سہ گئے ہر وہم کی چوٹ آخر اک عشق کا معیار بنا کر اٹھے ان نگاہوں کا ...

    مزید پڑھیے

    سنو تو ذرا یہ آخر شب نفیر دعا عجیب سی ہے

    سنو تو ذرا یہ آخر شب نفیر دعا عجیب سی ہے زمان و مکاں پہ چھائی ہوئی جنوں کی نوا عجیب سی ہے نظام نیا شعور نیا مثال عطا عجیب سی ہے سوال پہ ہاتھ کاٹتے ہیں طلب کی سزا عجیب سی ہے جگر پہ ہر اک سنان نظر جو سہتے ہوئے گزر گئے ہم جواب میں اب حریفوں کی شکست انا عجیب سی ہے یہ پاس بہار اشک پیے ...

    مزید پڑھیے

    غم نیرنگ دکھاتا ہے ہستی کی جلوہ نمائی کا

    غم نیرنگ دکھاتا ہے ہستی کی جلوہ نمائی کا کتنے زمانوں کا حاصل ہے اک لمحہ تنہائی کا تیرے نازک لب ہیں گویا موسم کا موضوع سخن گلشن گلشن شہرہ ہے شادابی کا رعنائی کا اپنے غم کی فکر نہ کی اس دنیا کی غم خواری میں برسوں ہم نے دست جنوں سے کام لیا دانائی کا عالم کے ہر منظر کو کچھ رنگ نئے ...

    مزید پڑھیے

    زخم ہی زخم ہیں دل پر کبھی ایسا تو نہ تھا

    زخم ہی زخم ہیں دل پر کبھی ایسا تو نہ تھا کرم یار کا نشتر کبھی ایسا تو نہ تھا پھول جو مجھ کو دئے بن گئے وہ انگارے وقت عیار و ستم گر کبھی ایسا تو نہ تھا بستیاں راز کی اشکوں میں بہی جاتی ہیں موجزن غم کا سمندر کبھی ایسا تو نہ تھا آج دست طلب اٹھے تو قلم ہو جائے دور محرومیٔ ساغر کبھی ...

    مزید پڑھیے

    وادیٔ کن سے غم مرحلہ پیما نکلا

    وادیٔ کن سے غم مرحلہ پیما نکلا میری کشتی کو لیے وقت کا دریا نکلا پائے ادراک میں چبھتا ہوا کانٹا نکلا عشق کے دام میں خود اپنا سراپا نکلا محنت اہل وفا آ ہی گئی کام آخر ہر شگاف غم ہستی سے سویرا نکلا عقل کو ناز تھا حد بندیٔ خیر و شر پر دل نے جانچا تو ہر اک کام ادھورا نکلا اس سے ملنے ...

    مزید پڑھیے

    کرتے ہیں وہی لوگ جہاں تازہ تر آباد

    کرتے ہیں وہی لوگ جہاں تازہ تر آباد ہر دور میں رکھتے ہیں جو سینہ شرر آباد پر شور گلستاں ہیں نہ اب دشت و در آباد کیا جانے کہاں ہو گئے اہل نظر آباد ٹھہراؤ کسی شے کے مقدر میں نہیں ہے دنیا ہے وہ جادہ جسے کہیے سفر آباد خوابوں کے صنم خانے سلامت ہیں تو یوں ہی فتنوں سے رہے گا خم زلف و کمر ...

    مزید پڑھیے

    تخلیق کے پردے میں ستم ٹوٹ رہے ہیں

    تخلیق کے پردے میں ستم ٹوٹ رہے ہیں آزر ہی کے ہاتھوں سے صنم ٹوٹ رہے ہیں ڈھائی کہیں جاتی ہے جو تعمیر محبت محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم ٹوٹ رہے ہیں سلجھے نہ مسائل غم و افلاس کے لیکن تفسیر مسائل میں قلم ٹوٹ رہے ہیں بے فیض گزر جاتے ہیں گلشن سے ہمارے موسم کے بھی اب قول و قسم ٹوٹ رہے ہیں رقاص ...

    مزید پڑھیے

    چمن چمن کہیں آنسو گھٹا گھٹا کہیں آہ

    چمن چمن کہیں آنسو گھٹا گھٹا کہیں آہ بنا رہا ہے نئی کائنات عشق تباہ نہ ہوش با خبر اس سے نہ بے خودی آگاہ میں کس سے پوچھوں ترے شہر التفات کی راہ بس ایک موت کی حد تک پہنچ سکی ہے نگاہ کہاں ملی ابھی دریائے سانحات کی تھاہ بہار مشرق دل انقلاب موسم غم کسی کا ایک تبسم کسی کی ایک نگاہ یہ ...

    مزید پڑھیے

    یاد ایامے کوئی وجہ پریشانی تو تھی

    یاد ایامے کوئی وجہ پریشانی تو تھی آنکھ یوں خالی نہیں تھی اس میں حیرانی تو تھی لب پہ مہر خامشی پہلے بھی لگتی تھی مگر آہ کی رخصت تو تھی اشکوں کی ارزانی تو تھی تھی نظر کے سامنے کچھ تو تلافی کی امید کھیت سوکھا تھا مگر دریا میں طغیانی تو تھی بزم سے اٹھے تو کیا خلوت میں جا بیٹھے تو ...

    مزید پڑھیے

    نقوش عمر گزشتہ سمیٹ لاتے ہیں

    نقوش عمر گزشتہ سمیٹ لاتے ہیں یہ رنگ رنگ کے بادل کہاں سے آتے ہیں کبھی کبھی سفر زندگی سے روٹھ کے ہم ترے خیال کے سائے میں بیٹھ جاتے ہیں تصورات کے حسرت کدے میں کون آیا چراغ تا حد احساس جلتے جاتے ہیں ہمیں ہے ڈر کوئی تار امید ٹوٹ نہ جائے سنبھل سنبھل کے انہیں حال دل سناتے ہیں بنا گئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2