Kausar Jayasi

کوثر جائسی

کوثر جائسی کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    ہم ترے غم کو جو پرکار بنا کر اٹھے

    ہم ترے غم کو جو پرکار بنا کر اٹھے نفس گرم کو تلوار بنا کر اٹھے آؤ ہم ہنستے اٹھیں بزم دل آزاراں سے کون احساس کو بیمار بنا کر اٹھے رات بھر تجربۂ خون جگر ہم نے کیا صبح دم دشت کو گل زار بنا کر اٹھے محفل راز میں ہم سہ گئے ہر وہم کی چوٹ آخر اک عشق کا معیار بنا کر اٹھے ان نگاہوں کا ...

    مزید پڑھیے

    سنو تو ذرا یہ آخر شب نفیر دعا عجیب سی ہے

    سنو تو ذرا یہ آخر شب نفیر دعا عجیب سی ہے زمان و مکاں پہ چھائی ہوئی جنوں کی نوا عجیب سی ہے نظام نیا شعور نیا مثال عطا عجیب سی ہے سوال پہ ہاتھ کاٹتے ہیں طلب کی سزا عجیب سی ہے جگر پہ ہر اک سنان نظر جو سہتے ہوئے گزر گئے ہم جواب میں اب حریفوں کی شکست انا عجیب سی ہے یہ پاس بہار اشک پیے ...

    مزید پڑھیے

    غم نیرنگ دکھاتا ہے ہستی کی جلوہ نمائی کا

    غم نیرنگ دکھاتا ہے ہستی کی جلوہ نمائی کا کتنے زمانوں کا حاصل ہے اک لمحہ تنہائی کا تیرے نازک لب ہیں گویا موسم کا موضوع سخن گلشن گلشن شہرہ ہے شادابی کا رعنائی کا اپنے غم کی فکر نہ کی اس دنیا کی غم خواری میں برسوں ہم نے دست جنوں سے کام لیا دانائی کا عالم کے ہر منظر کو کچھ رنگ نئے ...

    مزید پڑھیے

    زخم ہی زخم ہیں دل پر کبھی ایسا تو نہ تھا

    زخم ہی زخم ہیں دل پر کبھی ایسا تو نہ تھا کرم یار کا نشتر کبھی ایسا تو نہ تھا پھول جو مجھ کو دئے بن گئے وہ انگارے وقت عیار و ستم گر کبھی ایسا تو نہ تھا بستیاں راز کی اشکوں میں بہی جاتی ہیں موجزن غم کا سمندر کبھی ایسا تو نہ تھا آج دست طلب اٹھے تو قلم ہو جائے دور محرومیٔ ساغر کبھی ...

    مزید پڑھیے

    وادیٔ کن سے غم مرحلہ پیما نکلا

    وادیٔ کن سے غم مرحلہ پیما نکلا میری کشتی کو لیے وقت کا دریا نکلا پائے ادراک میں چبھتا ہوا کانٹا نکلا عشق کے دام میں خود اپنا سراپا نکلا محنت اہل وفا آ ہی گئی کام آخر ہر شگاف غم ہستی سے سویرا نکلا عقل کو ناز تھا حد بندیٔ خیر و شر پر دل نے جانچا تو ہر اک کام ادھورا نکلا اس سے ملنے ...

    مزید پڑھیے

تمام