سرخ ہونٹوں سے مرے دل پہ نشانی لکھ دے
سرخ ہونٹوں سے مرے دل پہ نشانی لکھ دے تو مرے نام کے آگے کبھی جانی لکھ دے عمر گزری ہے مری شام فرات دل میں میں ہوں پیاسا مرے نسخے میں تو پانی لکھ دے اب تری یاد بھی کم کم ہی مجھے آتی ہے جانے کس طرح سے گزری ہے جوانی لکھ دے آرزو ایک ہی اس دل میں رہی ہے رقصاں تو کوئی میرے لیے شام سہانی ...