Kanval Ziai

کنول ضیائی

  • 1927 - 2012

کنول ضیائی کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    غم کی ہر ایک بات کو اب غم پہ چھوڑ دے

    غم کی ہر ایک بات کو اب غم پہ چھوڑ دے اس تشنگی کو قطرۂ شبنم پہ چھوڑ دے جو تو نے کر دیا ہے تو اس کا حساب رکھ جو ہم سے ہو گیا ہے اسے ہم پہ چھوڑ دے خنجر تھا کس کے ہاتھ میں بس اتنا یاد کر زخموں کا درد وقت کے مرہم پہ چھوڑ دے تو دیوتا ہے صرف عبادت سے کام رکھ آدم کے ہر گناہ کو آدم پہ چھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    بہت دنوں سے کھلا در تلاش کرتا ہوں

    بہت دنوں سے کھلا در تلاش کرتا ہوں میں اپنے گھر میں کھڑا گھر تلاش کرتا ہوں پلک پہ قطرۂ شبنم اٹھائے صدیوں سے ترے کرم کا سمندر تلاش کرتا ہوں نظر میں جیت کی تصدیق کا سوال لیے گلی گلی میں سکندر تلاش کرتا ہوں بدن بدن سے خلوص و وفا کی خوشبوئیں میں سونگھ کر نہیں چھوکر تلاش کرتا ...

    مزید پڑھیے

    حرفوں کا دل کانپ رہا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے

    حرفوں کا دل کانپ رہا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے کس قاتل کا نام لکھا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے خون سے جلتا ایک دیا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے آج بھی کتنی گرم ہوا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے کروٹ لے کر ایک قیامت جاگنے والی ہے اب شاید کہنے کو اک سناٹا ہے لفظوں کی دیوار کے ...

    مزید پڑھیے

    روز فلک سے نم برسیں گے

    روز فلک سے نم برسیں گے پیار کے بادل کم برسیں گے موت نے آنچل جب لہرایا آنگن میں ماتم برسیں گے قطرہ قطرہ خون کا بن کر اس دھرتی پر ہم برسیں گے زلف کھلے گی پروائی کی گلشن پر موسم برسیں گے اب کے برس برسات میں بھائی دکھ برسیں گے غم برسیں گے بن کر رسوائی کے آنسو تیری آنکھ سے ہم برسیں ...

    مزید پڑھیے

    پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے

    پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے وہ شخص صاحب فن بھی ہے کامیاب بھی ہے جو روپ آئی کو اچھا لگے وہ اپنا لیں ہماری شخصیت کانٹا بھی ہے گلاب بھی ہے ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں ہمارے خون میں گنگا بھی ہے چناب بھی ہے ہمارا دور اندھیروں کا دور ہے لیکن ہمارے دور کی مٹھی میں آفتاب ...

    مزید پڑھیے

تمام