Kanval Ziai

کنول ضیائی

  • 1927 - 2012

کنول ضیائی کی غزل

    غم کی ہر ایک بات کو اب غم پہ چھوڑ دے

    غم کی ہر ایک بات کو اب غم پہ چھوڑ دے اس تشنگی کو قطرۂ شبنم پہ چھوڑ دے جو تو نے کر دیا ہے تو اس کا حساب رکھ جو ہم سے ہو گیا ہے اسے ہم پہ چھوڑ دے خنجر تھا کس کے ہاتھ میں بس اتنا یاد کر زخموں کا درد وقت کے مرہم پہ چھوڑ دے تو دیوتا ہے صرف عبادت سے کام رکھ آدم کے ہر گناہ کو آدم پہ چھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    بہت دنوں سے کھلا در تلاش کرتا ہوں

    بہت دنوں سے کھلا در تلاش کرتا ہوں میں اپنے گھر میں کھڑا گھر تلاش کرتا ہوں پلک پہ قطرۂ شبنم اٹھائے صدیوں سے ترے کرم کا سمندر تلاش کرتا ہوں نظر میں جیت کی تصدیق کا سوال لیے گلی گلی میں سکندر تلاش کرتا ہوں بدن بدن سے خلوص و وفا کی خوشبوئیں میں سونگھ کر نہیں چھوکر تلاش کرتا ...

    مزید پڑھیے

    حرفوں کا دل کانپ رہا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے

    حرفوں کا دل کانپ رہا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے کس قاتل کا نام لکھا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے خون سے جلتا ایک دیا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے آج بھی کتنی گرم ہوا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے کروٹ لے کر ایک قیامت جاگنے والی ہے اب شاید کہنے کو اک سناٹا ہے لفظوں کی دیوار کے ...

    مزید پڑھیے

    روز فلک سے نم برسیں گے

    روز فلک سے نم برسیں گے پیار کے بادل کم برسیں گے موت نے آنچل جب لہرایا آنگن میں ماتم برسیں گے قطرہ قطرہ خون کا بن کر اس دھرتی پر ہم برسیں گے زلف کھلے گی پروائی کی گلشن پر موسم برسیں گے اب کے برس برسات میں بھائی دکھ برسیں گے غم برسیں گے بن کر رسوائی کے آنسو تیری آنکھ سے ہم برسیں ...

    مزید پڑھیے

    پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے

    پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے وہ شخص صاحب فن بھی ہے کامیاب بھی ہے جو روپ آئی کو اچھا لگے وہ اپنا لیں ہماری شخصیت کانٹا بھی ہے گلاب بھی ہے ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں ہمارے خون میں گنگا بھی ہے چناب بھی ہے ہمارا دور اندھیروں کا دور ہے لیکن ہمارے دور کی مٹھی میں آفتاب ...

    مزید پڑھیے

    روح اجداد کو جھنجھوڑ دیا بچوں نے

    روح اجداد کو جھنجھوڑ دیا بچوں نے سارے حالات کا رخ موڑ دیا بچوں نے آخری ایک کھلونا تھا روایت کا وقار باتوں باتوں میں جسے توڑ دیا بچوں نے گھر کا ہر شخص نظر آتا ہے بت پتھر کا جب سے رشتوں کو نیا موڑ دیا بچوں نے زندگی آج ہے اک ایسے اپاہج کی طرح لا کے جنگل میں جسے چھوڑ دیا بچوں نے آج ...

    مزید پڑھیے

    کہاں تک بڑھ گئی ہے بات لکھنا

    کہاں تک بڑھ گئی ہے بات لکھنا مرے گاؤں کے سب حالات لکھنا جواں بیٹوں کی لاشوں کے علاوہ ملی ہے کون سی سوغات لکھنا کوئی سوتا ہے یا سب جاگتے ہیں وہاں کٹتی ہے کیسے رات لکھنا لہو دھرتی میں کتنا بو چکے ہو نئی فصلوں کی بھی اوقات لکھنا کہاں جلتا رہا دھرتی کا سینہ کہاں ہوتی رہی برسات ...

    مزید پڑھیے

    زمانے کو لہو پینے کی لت ہے

    زمانے کو لہو پینے کی لت ہے مگر پھر بھی یہاں سب خیریت ہے ہماری شخصیت کیا شخصیت ہے ہر اک تیور دکھاوے کی پرت ہے ہمارا گھر بہت چھوٹا ہے لیکن ہمارا گھر ہماری سلطنت ہے یہ قطرہ خون کا دریا بنے گا ابھی انسان زیر تربیت ہے تعارف ہم سے اپنی ذات کا بھی ابھی اہل کرم کی معرفت ہے لکھے ہیں ...

    مزید پڑھیے