Kamran Ghani Saba

کامران غنی صبا

کامران غنی صبا کی غزل

    الزام تیرگی کے سدا اس پہ آئے ہیں

    الزام تیرگی کے سدا اس پہ آئے ہیں جس نے چراغ اپنے لہو سے جلائے ہیں شاید اسے ہماری انا کا گماں نہ تھا ہم تشنگی پٹک کے سمندر سے آئے ہیں یہ دل کشی ثبوت ہے اے جان شاعری پھولوں نے رنگ تیرے لبوں سے چرائے ہیں حیراں ہے وہ بھی وسعت پرواز دیکھ کر جس نے ہماری فکر پر پہرے بٹھائے ہیں ترک ...

    مزید پڑھیے

    غم حیات کو لکھا کتاب کی مانند

    غم حیات کو لکھا کتاب کی مانند اور ایک نام کہ ہے انتساب کی مانند نہ جانے کہہ دیا کس بے خودی میں ساقی نے سرور تشنہ لبی ہے شراب کی مانند بہت قریب سے دیکھا تو انکشاف ہوا وہ خار خار ہے شاخ گلاب کی مانند مرا سوال کہ کس نے مجھے تباہ کیا ترا سکوت مکمل جواب کی مانند میں اپنی آنکھوں کو ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں بتاؤں کہ کس مشغلے سے آئی ہے

    تمہیں بتاؤں کہ کس مشغلے سے آئی ہے مری نظر میں چمک رت جگے سے آئی ہے خیال جیسے ہی آیا ذرا سا دم لے لوں تو اک صدائے جرس قافلے سے آئی ہے چمک رہی ہے جبیں نقش پا کی برکت سے وہ بالیقیں ترے راستے سے آئی ہے یہ کیا عجب ہے کہ مجھ کو ہی کچھ نہیں معلوم جو میری بات ترے واسطے سے آئی ہے تم اپنے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کتنا آزمائے گی

    زندگی کتنا آزمائے گی آخرش وہ بھی ہار جائے گی کس قدر پیاس ہے سمندر کو میری تشنہ لبی بتائے گی کیا خبر تھی شب فراق کے بعد زندگی خود بھی روٹھ جائے گی کیا ہوا لب کو سی دیا بھی اگر خامشی داستاں سنائے گی میں اسے کیسے بھول پاؤں گا وہ مجھے کیسے بھول پائے گی بعد ترک تعلقات صباؔ اور بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہوتا اگر دبیز جنون سفر کا رنگ

    ہوتا اگر دبیز جنون سفر کا رنگ خود ہی اترنے لگتا رہ پر خطر کا رنگ سورج غروب ہوتے ہوئے مجھ سے کہہ گیا کچھ تو بتا کہ کیسا ہے خون جگر کا رنگ اے اہلیان امن و اخوت میں کیا کہوں کس درجہ سرخ ہے ترے دیوار و در کا رنگ مانا کہ لب خموش تھے آنکھیں تو چپ نہ تھیں سب راز فاش کر گیا تیری نظر کا ...

    مزید پڑھیے