Kamal Ahmad Siddiqi

کمال احمد صدیقی

عروض کے معروف ماہر اور محقق

famous expert on arooz and scholar.

کمال احمد صدیقی کی غزل

    جن انکھڑیوں میں نہ تھا کچھ شرارتوں کے سوا

    جن انکھڑیوں میں نہ تھا کچھ شرارتوں کے سوا ان انکھڑیوں میں نہیں کچھ بھی حسرتوں کے سوا لبوں پہ موج تبسم کا عہد بیت گیا لبوں پہ آج نہیں کچھ شکایتوں کے سوا وہ انجمن کا تصور کرے تو کیسے کرے جسے نصیب نہ ہو کچھ بھی خلوتوں کے سوا اک آئنہ ہوں جنون و خرد کا آئینہ مری نظر میں نہیں کچھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    عروج اوروں کو کچھ دن ہے اہرمن کی طرح

    عروج اوروں کو کچھ دن ہے اہرمن کی طرح فروغ کس کو ہے رندوں کے بانکپن کی طرح مرا خیال نہیں ہے تو اور کیا ہوگا گزر گیا ترے ماتھے سے جو شکن کی طرح یہ سر زمین گل و لالہ سو بھی جاتی ہے لبادہ برف کا اوڑھے ہوئے کفن کی طرح کبھی تو گزروں گا اس رہ گزار سے ہو کر خود اپنی تاک میں بیٹھا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    شراب خانہ ترا ایسا انتخاب نہیں ہے

    شراب خانہ ترا ایسا انتخاب نہیں ہے خواص پیتے ہیں سب کے لیے شراب نہیں ہے شکار ظلم کا جو ہیں انہیں پہ ہے ہر شدت وہ جو ہیں ظالم ان پر کوئی عتاب نہیں ہے یہ تیرا فرض ہے ساقی ملے سبھی کو برابر ہے تیرا منصب ساقی کوئی خطاب نہیں ہے یہاں تو کوئی نہیں آدمی سبھی ہیں فرشتے مرے علاوہ یہاں پر ...

    مزید پڑھیے

    دل میں جو بات کھٹکتی ہے دہن تک پہنچے

    دل میں جو بات کھٹکتی ہے دہن تک پہنچے خامشی مرحلۂ عرض سخن تک پہنچے محرم حسن بہاراں تو نہیں ہو سکتی وہ نظر صرف جو گل ہائے چمن تک پہنچے زندگی نام اسی موج مے ناب کا ہے مے کدے سے جو اٹھے دار و رسن تک پہنچے گلستانوں کا اجارہ نہیں فصل گل پر فصل گل وہ ہے جو ہر دشت و دمن تک پہنچے عہد ہم ...

    مزید پڑھیے

    میرا سر کب کسی دربار میں خم ہوتا ہے

    میرا سر کب کسی دربار میں خم ہوتا ہے کوچۂ یار میں لیکن یہ قدم ہوتا ہے پرسش حال بھی اتنی کہ میں کچھ کہہ نہ سکوں اس تکلف سے کرم ہو تو ستم ہوتا ہے شیخ مے خانہ میں کرتا ہے ارم کی باتیں اسی مے خانہ کا اک گوشہ ارم ہوتا ہے ایک دل ہے کہ اجڑ جائے تو بستا ہی نہیں ایک بت خانہ ہے اجڑے تو حرم ...

    مزید پڑھیے

    یہ ذکر آئنے سے صبح و شام کس کا ہے

    یہ ذکر آئنے سے صبح و شام کس کا ہے جو گنگناتے ہو ہر دم کلام کس کا ہے بھرے ہوئے ہیں سبھی صرف ایک خالی ہے اگر یہ میرا نہیں ہے تو جام کس کا ہے جو اہل ظرف ہیں پیاسے وہی ہیں محفل میں یہ دور کس کا ہے یہ انتظام کس کا ہے ہمارے نام پہ کیا کیا نہیں ہوا ہے یہاں ذرا پتہ تو چلاؤ نظام کس کا ...

    مزید پڑھیے

    باتیں جو تھیں درست پرانے نصاب میں

    باتیں جو تھیں درست پرانے نصاب میں ان میں سے ایک بھی تو نہیں ہے کتاب میں محرومیوں نے بزم سجائی ہے خواب میں سب کے الگ الگ ہیں مناظر سراب میں پانی کی طرح اہل ہوس نے شراب پی لکھی گئی ہے تشنہ لبوں کے حساب میں سب نام ہیں درست مگر واقعہ غلط ہر بات سچ نہیں جو لکھی ہے کتاب میں صد آتشہ ...

    مزید پڑھیے