Junaid Akhtar

جنید اختر

جنید اختر کی غزل

    میری محفل میں اگر چاند ستارے ہوتے

    میری محفل میں اگر چاند ستارے ہوتے وہ بھی قربان مری جان تمہارے ہوتے مجھ کو صحراؤں سے جانے کی اجازت ہوتی پھر یہ دریا نہ سمندر نہ کنارے ہوتے وہ تو بس جھوٹی تسلی کو کہا تھا تم سے ہم تو اپنے بھی نہیں، خاک تمہارے ہوتے ان کے پیچھے بھی کوئی غم کا سمندر ہوگا ورنہ آنسو نہ کبھی آنکھ میں ...

    مزید پڑھیے

    سارے تو نہیں جان بچانے میں لگے ہیں

    سارے تو نہیں جان بچانے میں لگے ہیں کچھ گھاؤ ہمیں زخم لگانے میں لگے ہیں ہے سب کو خبر شاہ کے چہرے پہ ہے کالک آئینے مگر سارے چھپانے میں لگے ہیں بیچ آئے اسے اس کے نگہبان کبھی کا ہم لوگ مگر گھر کو سجانے میں لگے ہیں بیٹھا ہی نہیں جاتا پرندوں میں بھی اب تو بے پر کی یہاں یہ بھی اڑانے میں ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے تو بین میں نوحے میں اداکاری کی

    ہم نے تو بین میں نوحے میں صداکاری کی آج دفنا دی ہے میت بھی روا داری کی ہم سے بد تر کوئی فن کار جہاں میں ہوگا ہم ادا کاریاں کرتے ہیں اداکاری کی ہم نے غیرت کا بغاوت کا الاپا دیپک تان اونچی ہے مگر آج بھی درباری کی ہم کو سائے سے بھی شاہوں کے بچا کر رکھنا ہم پہ آ جائے نہ تہمت بھی طرف ...

    مزید پڑھیے

    وہ لوگ تو آنکھوں سے بھی دیکھا نہیں کرتے

    وہ لوگ تو آنکھوں سے بھی دیکھا نہیں کرتے جو دل کے دریچوں کو کبھی وا نہیں کرتے ایسی ہی کشاکش میں الٹ جاتی ہے دنیا سنبھلے نہ اگر دل تو سنبھالا نہیں کرتے رکھتے ہیں محبت کو تغافل میں چھپا کر پروا ہی تو کرتے ہیں جو پروا نہیں کرتے ہوگا کوئی ہم جیسا کہاں ہجر گزیدہ ماتم بھی تو تنہائی کا ...

    مزید پڑھیے

    راہ طلب میں دام و درم چھوڑ جائیں گے

    راہ طلب میں دام و درم چھوڑ جائیں گے لکھ لو ہمارے شعر بڑے کام آئیں گے جھوٹا ہے جھوٹ بات یہ بولے گا آئینہ آؤ ہمارے سامنے ہم سچ بتائیں گے تنہا جو اپنا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں خود مر جائیں ہم تو چار یہ مل کر اٹھائیں گے تھوڑی سی بے خودی ہو تو ہم اٹھ کے چل پڑیں ہوش و حواس میں تو قدم ...

    مزید پڑھیے

    کوئی مہلک سی بیماری ہوئی ہے

    کوئی مہلک سی بیماری ہوئی ہے محبت آنکھ سے جاری ہوئی ہے تیری رقت کی شدت سے ہے ظاہر یہ میرے نام پر طاری ہوئی ہے سزا ہے یہ معاشی ہجرتوں کی بہت مصروف بیکاری ہوئی ہے کبھی قسمت کو بیچاری نہ کہنا کہ یہ تقدیر کی ماری ہوئی ہے زباں چلتی نہیں ہے اس طرح سے یہ آری کاٹ سے عاری ہوئی ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    ہرزہ سرائی بین سخن اور بڑھ گئی

    ہرزہ سرائی بین سخن اور بڑھ گئی سستا ہوا تو قیمت فن اور بڑھ گئی جانا کہ دوست ہی تھا مسیحا کے روپ میں دل پر رکھا جو ہاتھ جلن اور بڑھ گئی جانے کہاں سے آئی تھی کل رات کو ہوا کھڑکی کھلی تو گھر میں گھٹن اور بڑھ گئی پہلے ہی ہاتھ پاؤں حسیں کم نہ تھے مگر رنگ حنا سے ان کی پھبن اور بڑھ ...

    مزید پڑھیے

    ہے ابھی تک اسی وحشت کی عنایت باقی

    ہے ابھی تک اسی وحشت کی عنایت باقی کوئی بھی چیز نہیں گھر کی سلامت باقی میں بھلا ہاتھ دعاؤں کو اٹھاتا کیسے اس نے چھوڑی ہی نہیں کوئی ضرورت باقی اس نے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں سے بھی پہچان لیا ہے بکھر کر بھی میاں میری نفاست باقی بے نشاں کوئی نہ اجڑے ہوئے کھنڈرات رہیں ان میں رہتی ہے ابھی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے دل کو سنبھال سکتا ہوں

    اپنے دل کو سنبھال سکتا ہوں تجھ کو حیرت میں ڈال سکتا ہوں وضع داری کا پاس ہے ورنہ میں بھی کیچڑ اچھال سکتا ہوں کم نہ سمجھو یہ آتش دل ہے میں سمندر ابال سکتا ہوں توڑ دوں آہنی اصول اپنے پھر میں سکے بھی ڈھال سکتا ہوں جانے کیوں ہے یقیں قضا کو بھی میں دعاؤں سے ٹال سکتا ہوں میں تجھے ...

    مزید پڑھیے

    جا کے سورج سے ملا دن میں بھی گھر سے نکلا

    جا کے سورج سے ملا دن میں بھی گھر سے نکلا بعد مدت میں چراغوں کے اثر سے نکلا اب تو مل جاتی ہیں ہر موڑ پہ آنکھیں اچھی تیری آنکھوں کا وہ کانٹا بھی نظر سے نکلا کتنی کم گو تھی مری جان سخن وہ خوشبو بات کرنے کا بہانہ بھی اگر سے نکلا جانے کس کس کو دیے میرے ہزاروں دل تھے یہ خزانہ مرے سینے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2