سنبھل کر آہ بھرنا اے اسیر دام تنہائی
سنبھل کر آہ بھرنا اے اسیر دام تنہائی کہیں ہاتھوں سے چھٹ جائے نہ دامان شکیبائی عجب انداز رکھتی ہے ادائے دشت پیمائی کہ خود ہی خار بڑھ کر چومتے ہیں پائے سودائی جو رنگ حسن خاموشی ہے وہ کھوتی ہے گویائی ہوا جب لب کشا غنچہ تو باہر بو نکل آئی ابھی تو بس تصور ہے تمہارے آستانے ...