Julius Naheef Dehlvi

جولیس نحیف دہلوی

جولیس نحیف دہلوی کی غزل

    ہندو ہے سکھ ہے مسلم ہے عیسائی ہے جو بھی ہے وہ وطن کا نگہبان ہے

    ہندو ہے سکھ ہے مسلم ہے عیسائی ہے جو بھی ہے وہ وطن کا نگہبان ہے یہ نہ دیکھو کہ وہ کام کرتا ہے کیا کام کچھ بھی کرے آخر انسان ہے یہ چھوا چھوت ہے دشمنی کا سبب ہم وطن ہیں تو پھر ہے یہ تفریق کیوں اک برہمن ہے اور ایک جن جات ہے وہ بھی انسان ہے وہ بھی انسان ہے ہادیٔ دین جتنے بھی آئے یہاں ...

    مزید پڑھیے

    تجھے رب کہے کوئی وہگرو تو کہیں خدا کہیں رام ہے

    تجھے رب کہے کوئی وہگرو تو کہیں خدا کہیں رام ہے یہ ہیں ایک نام کی برکتیں ہمیں نام لینے سے کام ہے تری معرفت کی شراب میں وہ سرور و کیف دوام ہے مئے تلخ میں بھلا کیا مزہ مئے تلخ پینا حرام ہے ہے حرام کیا تو حلال کیا یہ ہمارے دل پہ ہے منحصر جسے چاہے دل تو حلال ہے جو نہ چاہے دل تو حرام ...

    مزید پڑھیے