مجھے یقین دلا حالت گماں سے نکال
مجھے یقین دلا حالت گماں سے نکال غم حیات کو بڑھتے ہوئے زیاں سے نکال پھر اس کے بعد جہاں تو کہے گزاروں گا بس ایک بار ذرا کرب جسم و جاں سے نکال میں عین اپنے ہدف پر لگوں گا، شرط لگا ذرا سا کھینچ مجھے اور پھر کماں سے نکال میں اپنے جسم کے اندر نہ دفن ہو جاؤں مجھے وجود کے گرتے ہوئے مکاں ...