Jamuna Parsad Rahi

جمنا پرشاد راہیؔ

جمنا پرشاد راہیؔ کی غزل

    سمند خواب وہاں چھوڑ کر روانہ ہوا

    سمند خواب وہاں چھوڑ کر روانہ ہوا جہاں سراغ سفر کوئی نقش پا نہ ہوا عجیب آگ لگا کر کوئی روانہ ہوا مرے مکان کو جلتے ہوئے زمانہ ہوا میں تھا کہاں کا مصور کہ پوجتی دنیا بہت ہوا تو مرا گھر نگار خانہ ہوا اگاؤ درد کی فصلیں کہ زندگی جاگے لہو کی فصل اگاتے ہوئے زمانہ ہوا میں آئینہ ہوں ہر ...

    مزید پڑھیے

    کہسار تغافل کو صدا کاٹ رہی ہے

    کہسار تغافل کو صدا کاٹ رہی ہے حیراں ہوں کہ پتھر کو ہوا کاٹ رہی ہے پیشانی ساحل پہ کوئی نام نہ ابھرے ہر موج سمندر کا لکھا کاٹ رہی ہے الفاظ کی دھرتی پہ ہوں مفہوم گزیدہ اب جسم پہ کاغذ کی قبا کاٹ رہی ہے ہر روح پس پردۂ ترتیب عناصر ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہے فن کار کا خوں دامن ...

    مزید پڑھیے

    بجھے بجھے سے شرارے ہیں زرد شاخوں پر

    بجھے بجھے سے شرارے ہیں زرد شاخوں پر سجا گیا ہے کوئی اپنا درد شاخوں پر سفیر شب کا کوئی اشک ڈھونڈتے ہوں گے ہوا کے جلتے ہوئے ہونٹ سرد شاخوں پر عیاں ہے رنگ تغزل گلوں کے چہروں سے بیاض رنگ نہیں فرد فرد شاخوں پر لپیٹے نور کی چادر میں درد کے سائے بھٹک رہا ہے کوئی شب نورد شاخوں پر ہوا ...

    مزید پڑھیے

    تصویر کا ہر رنگ نظر میں ہے

    تصویر کا ہر رنگ نظر میں ہے کیا بات ترے دست ہنر میں ہے سونا سا پگھلتا ہے رگ و پے میں خورشید ہوس کاسۂ سر میں ہے نکلا ہوں تو کیا رخت سفر باندھوں جو کچھ ہے وہ سب راہ گزر میں ہے اک رات ہے پھیلی ہوئی صدیوں پر ہر لمحہ اندھیروں کے اثر میں ہے پانی ہے سرابوں سے وراثت میں وہ خاک جو دامان ...

    مزید پڑھیے

    خوں گرفتہ ہو تو خنجر کا بدن دکھتا ہے

    خوں گرفتہ ہو تو خنجر کا بدن دکھتا ہے پنجۂ خیر میں ہی شر کا بدن دکھتا ہے پیکر نیم شکستہ ہوں کرو تیشہ زنی بارش گل سے یہ پتھر کا بدن دکھتا ہے کون ہے تجھ سا جو بانٹے مری دن بھر کی تھکن مضمحل رات ہے بستر کا بدن دکھتا ہے مستقل شورش طوفاں سے رگیں ٹوٹتی ہیں ضبط پیہم سے سمندر کا بدن دکھتا ...

    مزید پڑھیے

    جنگ میں پروردگار شب کا کیا قصا ہوا

    جنگ میں پروردگار شب کا کیا قصا ہوا لشکر شب صبح کی سرحد پہ کیوں پسپا ہوا اک عجب سی پیاس موجوں میں صدا دیتی ہوئی میں سمندر اپنی ہی دہلیز پر بکھرا ہوا کچی دیواریں صدا نوشی میں کتنی طاق تھیں پتھروں میں چیخ کر دیکھا تو اندازا ہوا کیا صداؤں کو صلیب خامشی دے دی گئی یا جنوں کے خواب کی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ تو سچائی کے شہکار نظر میں آتے

    کچھ تو سچائی کے شہکار نظر میں آتے کاش ہم لوگ نہ خوابوں کے اثر میں آتے ہم نے اس خوف سے خاکوں کو مکمل نہ کیا شام کے رنگ بھی تصویر سحر میں آتے جب کہ ہر روزن دیوار نمکداں ٹھہرا کیسے مجروح اجالے مرے گھر میں آتے سوئے پنگھٹ پہ جمی برف پگھل سکتی تھی پیاسے سورج تو کبھی میرے نگر میں ...

    مزید پڑھیے

    ہوا نے دوش سے جھٹکا تو آب پر ٹھہرا

    ہوا نے دوش سے جھٹکا تو آب پر ٹھہرا میں کچھ بھنور میں گرا کچھ حباب پر ٹھہرا زمیں سے جذب یہ پگھلی سی نکہتیں نہ ہوئیں عروس شب کا پسینہ گلاب پر ٹھہرا غم و نشاط کا کتنا حسین سنگم ہے کہ تارہ آنکھ سے ٹوٹا شراب پر ٹھہرا روپہلی جھیل کی موجوں میں اضطراب سا ہے قدم یہ کس کا سنہرے سراب پر ...

    مزید پڑھیے

    دیار سنگ میں رہ کر بھی شیشہ گر تھا میں

    دیار سنگ میں رہ کر بھی شیشہ گر تھا میں زمانہ چیخ رہا تھا کہ بے خبر تھا میں لگی تھی آنکھ تو مریم کی گود کا تھا گماں کھلی جب آنکھ تو دیکھا صلیب پر تھا میں اماں کسے تھی مرے سائے میں جو رکتا کوئی خود اپنی آگ میں جلتا ہوا شجر تھا میں تمام عمر نہ لڑنے کا غم رہا مجھ کو عجب محاذ پہ ہارا ...

    مزید پڑھیے

    کشتیاں ڈوب رہی ہیں کوئی ساحل لاؤ

    کشتیاں ڈوب رہی ہیں کوئی ساحل لاؤ اپنی آنکھیں مری آنکھوں کے مقابل لاؤ پھول کاغذ کے ہیں اب کانچ کے گل دانوں میں تم بھی بازار سے پتھر کے عنادل لاؤ ایک آواز ابھرتی ہے پس منظر خوں اے اجالو مری تصویر کا قاتل لاؤ مڑ کے دیکھو گے تو پتھر سے بدل جاؤ گے اب تصور میں نہ چھوڑی ہوئی منزل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2